Kya Azan Dene Wale Ke Ilawa Koi Dosra Shakhs Takbeer Ya Iqamat Keh Sakta Hai ?

ایک شخص نے اذان دی ،تودوسرے کا اقامت کہنا کیسا  ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7643

تاریخ اجراء: 10 جمادی الاولیٰ 1443 ھ / 15دسمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ  ایک شخص نے اذان دی  اور خود کہیں چلا گیا ،تو  کوئی دوسرا شخص  تکبیرِ اقامت کہہ سکتا ہے  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو شخص اذان دے تکبیرِ اقامت  کہنا بھی اسی کا حق ہے ، مؤذن کے موجود ہوتے ہوئے اس کی  اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کا تکبیرِ اقامت کہنا ، مکروہ  یعنی ناپسندیدہ ہے ، جبکہ اس سے مؤذن کو ناگوار گزرتا  ہو ،   لیکن  اگر کوئی دوسرا شخص مؤذن کی اجازت سے اقامت کہے، یا بغیر اجازت کے کہےاور اس سے مؤذن کو ناگوار محسوس  نہ ہو، یا   اذان دینے والا موجود  ہی نہ ہو  ، تو  دوسرے شخص  کاتکبیرِ اقامت کہنا بلا کراہت جائز ہے ۔

   یاد رہے ! جس نے نماز نہیں پڑھی ،وہ مؤذن ہو خواہ  کوئی اور شخص  ، اُسے نماز  کا وقت شروع ہونے  کے بعد بلا ضرورت مسجد سے  نکلنا مکروہ تحریمی ، ناجائز و گناہ ہے ،ہاں  ضرورت ہو  ، مثلاً کسی دوسری مسجد کا امام یا منتظم ہے  یا استنجے وغیرہ کی حاجت ہے یا ضرورت تو نہیں ، لیکن جماعت تک واپس آنے کا ارادہ ہو، تب بھی جا سکتا ہے ۔

   تکبیرِ اقامت مؤذن کا حق ہے ، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے  : عن زياد بن الحارث الصدائي، قال: أمرني رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أن أؤذن في صلاة الفجر، فأذنت، فأراد بلال أن يقيم، فقال: رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن أخا صداء قد أذن، ومن أذن فهو يقيم ترجمہ : حضرت زیاد بن حارث صدائی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ نماز فجر میں رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے اَذان کہنے کا حکم دیا، میں نے اَذان کہی، حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے اِقامت  کہنا  چاہی،تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: صدائی نے اَذان کہی اور جو اَذان دے ،وہی اِقامت کہے۔ (جامع الترمذي، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء أن من أذن فھو يقيم، جلد 1 ،صفحہ  148 ، مطبوعہ لاھور )

   مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت  المفاتیح شرح مصابیح میں ہے: يعني: الاقامة حقّ من أذّن، ويكره أن يقيم غير من أذّن إلا برضاه  ترجمہ :  یعنی اقامت کہنا اسی کا حق ہے جس نے اذان دی ، دوسرے شخص کا مؤذن کی اجازت کے بغیر اقامت کہنا مکروہ ہے ۔ (المفاتيح في شرح المصابيح، کتا ب الصلاۃ ، باب الاذان ، جلد 2 ،صفحہ 44 ،مطبوعہ دارالنوادر ، الکویتیہ )

   اور تنویرالابصار مع در مختار میں ہے : ’’(أقام غير من أذن بغيبته) أي المؤذن (لا يكره مطلقاً)، وإن بحضوره كره إن لحقه وحشة‘‘  ترجمہ : مؤذن کی عدم موجودگی میں کسی اور شخص کا اقامت کہنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے ، ہاں اگر مؤذن موجود  ہو  اور اسے ناگوار بھی گزرے گا ،تو کسی اور کا اقامت کہنا مکروہ ہے ۔ ( تنویرالابصار مع درمختار ، کتاب الصلاۃ ،باب الاذان ، جلد2 ،صفحہ 79 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   فتاویٰ عالمگیر ی میں ہے :والأفضل أن یکون المؤذن هو المقیم، کذا في الکافي ،  وإن أذن رجل وأقام آخر، إن غاب الأول جاز من غیر کراهة، وإن کان حاضراً ویلحقه الوحشة بإقامة غیره یکره، وإن رضي به لایکره‘‘ ترجمہ :  افضل یہی ہے کہ مؤذن ہی اقامت کہے ، یونہی کافی میں ہے اور  اگر ایک شخص  اذا ن دے اور دوسرا اقامت کہے  ،تو اگر پہلا شخص ( یعنی مؤذن ) موجود نہ ہو   ، تو  بلا کراہت جائز ہے اور اگر پہلاشخص ( یعنی مؤذن ) موجود ہو  اور اسے ناگوار  بھی محسوس ہو،تو دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ ہے اور اگر مؤذن راضی ہو ،تو مکروہ بھی نہیں ۔ (الفتاوی الهندية، کتاب الصلاۃ ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الاول فی صفۃ الاذان ، جلد  1 ،صفحہ 54 ،مطبوعہ کوئٹہ )

   شیخ الاسلام و المسلمین  اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: اگر مؤذن موجودہے ،تو اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا تکبیر نہ کہے اور امام کے لیے بھی مناسب نہیں کہ شرعی عذر کے بغیر کسی دوسرے کو تکبیر کے لیے کہے، شرعی عذر  ، مثلاً: اس کی اقامت لحن پر مشتمل ہو، اجازت مؤذن کے بغیراقامت کہنا مناسب نہیں کہ شاید وہ اسے ناپسند کرتا ہو۔(فتاویٰ رضویہ ، کتاب الصلوٰۃ ، جلد 5 ، صفحہ 418 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:جس نے اَذان کہی، اگر موجود نہیں، تو جو چاہے اِقامت کہہ لے اور بہتر امام ہے اور مؤذن موجود ہے، تو اس کی اجازت سے دوسرا کہہ سکتا ہے کہ یہ اسی کا حق ہے اور اگر بے اجازت کہی اور مؤذن کو ناگوار ہو، تو مکروہ ہے۔‘‘ (بھار شریعت ، جلد 1 ،حصہ 3 ،صفحہ 470 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   اذان کے بعدمسجد سے نکلنے کے متعلقامامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : مسجد سے بے نماز پڑھے باہرجانا دوشرط سے ممنوع ہے۔ایک یہ کہ وہ خروج بے حاجت ہو ورنہ بلاشبہ جائز ہے ،مثلاً: جس شخص کی ذات سے دوسری مسجد کی جماعت کاانتظام وابستہ ہے، وہ بعد اذان بلکہ خاص اقامت ہوتے وقت باہرجاسکتاہے ،یونہی جسے دوسری مسجد میں بعد نمازدینی سبق پڑھنا یاسنی عالم کاوعظ سننا ہو اسی طرح پیشاب یااستنجے یاوضو کی حاجتیں۔ دوسرے یہ کہ شروع جماعت تک واپسی کاارادہ نہ ہو ورنہ مضائقہ نہیں،اگرچہ بے ضرورت ہی سہی۔   ( فتاویٰ رضویہ ، کتاب الصلوٰۃ ، جلد 7 ،صفحہ 450 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم