Kya Ayat e Sajda Parhne Ya Sunne Ke Foran Baad Sajda Karna Lazim Hai?

کیا آیت سجدہ  پڑھنے یا سننے کے فوراً بعد سجدہ کرنا لازم ہے ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mad-316

تاریخ اجراء:29رمضان المبارک1443 ھ/01مئی22 20ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حفاظ جب منزل کا دور کرتے ہیں،تو اس دوران آیت سجدہ آنے پر فوراً سجدہ کرنا بعض اوقات گراں ہوتا ہے، مثلا ً :چارپائی پر بیٹھ کر یا چلتے،پھرتے دور کرنے کی صورت میں ،سوال یہ ہے کہ  آیت سجدہ پڑھی یا سنی  توسجدہ فورا ً کرنا واجب ہے یا تاخیر بھی کرسکتے ہیں  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانین شریعت کے مطابق  آیت سجدہ  پڑھی یا سنی تو فوراً  سجدہ کرنا واجب  نہیں  ہے،البتہ بلاعذر ،تاخیر مکروہ تنزیہی ہے کہ بعد میں بھول جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ،لہذا   افضل یہی ہے کہ اگر کوئی عذر نہ ہو،تو  سجدہ تلاوت فورا ً کرلیا جائے۔خیال رہے !یہ حکم نماز کے علاوہ کا ہے ،نماز میں سجدہ تلاوت کا وجوب فوری ہے، حتی کہ  تین آیت سے زیادہ تاخیر گناہ ہے۔

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے:’’(وھی علی التراخی)علی المختار،ویکرہ  تاخیرھاتنزیھا(ان لم تکن صلوتیۃ)فعلی الفور، ملخصا‘‘اور مختار قول کے مطابق سجدۂ تلاوت تراخی کے ساتھ واجب ہوتا ہےاور اس میں تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے،جبکہ نماز والا نہ ہو  کہ نماز والے سجدہ تلاوت کا وجوب فوری ہے۔ (تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار ،جلد2، صفحہ704،703،،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار  میں ہے:’’قولہ( تنزیھا)لانہ بطول الزمان قد ینساھا ولو کانت الکراھۃ تحریمیۃ لوجبت علی الفور ولیس کذالک ، قولہ:(فعلی الفور)جواب شرط مقدر  تقدیرہ  فان کانت صلوتیۃ فعلی الفورثم تفسیر الفور عدم طول المدۃ بین التلاوۃ والسجدۃ بقراءۃ اکثر من آیتین او ثلاث ،ملخصا‘‘شارح علیہ الرحمۃ  کا قول:’’ سجدہ تلاوت میں  تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ مدت دراز کی وجہ سےبعض اوقات سجدہ کرنا بھول جاتا ہےاور اگر کراہت تحریمی ہوتی، تو   فوراً  واجب ہوتا،جبکہ ایسا نہیں، شارح علیہ الرحمۃ کا قول’’وجوب فوری ہے‘‘ یہ شرط مقدر کا جواب ہے ،جس کی تقدیر  یہ ہے کہ  اگر سجدہ نماز والا ہو، تو وجوب فوری ہے،پھر فوری وجوب کی تشریح یہ ہے کہ آیت سجدہ کی تلاوت اور سجدہ   میں دو تین آیت  کی قراءت سے زیادہ  وقفہ نہ ہو۔(ردالمحتار،جلد2،صفحہ704،703،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا :’’ سجدات کلام اللہ شریف وقت تلاوت معاًادا کرے  یا جس وقت چاہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جوابا ًارشاد فرمایا :’’سجدہ صلوٰتیہ جس کا ادا کرنا نماز میں واجب ہو،  اس کا وجوب  علی الفور ہے ،یہاں تک کہ دو تین  آیت سے زیادہ  تاخیر گناہ ہے اورغیر صلوٰتیہ میں بھی افضل و اسلم  یہی ہے کہ فورا ً ادا کرے، جبکہ کوئی عذر نہ ہو  کہ اٹھا رکھنے میں بھول پڑتی ہے ’’وفی التاخیرآفات‘‘ (اور تاخیر میں آفات ہیں)ولہذا علماء نے اس کی تاخیر کو  مکروہ تنزیہی  فرمایا مگر ناجائز نہیں۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ233 ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   فائدہ: حدیث  شریف کے مطابق جب ابن آدم آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے،توشیطان ہٹ جاتا ہے اور رو کر کہتا ہے، ہائے میری بربادی!ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا، اس نے سجدہ کیا، اس کے ليے جنت ہے اور مجھے حکم ہوا، تو میں نے انکار کیا، میرے ليے دوزخ ہے۔نیز خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام علیھم الرضوان کی موجودگی میں تلاوت کرتے اور   دوران تلاوت آیت سجدہ کی تلاوت کرنے پر سب  سجدہ کرتے۔حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنھما   کے ارشاد کے مطابق کیفیت یہ ہوتی کہ ہجوم کی وجہ سےکسی کو پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی تھی’’سبحان اللہ‘‘  کیسا شوق تلاوت وعبادت تھا ۔

   چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے:’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنھا قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اذا قرا    ابن آدم  السجدۃ فسجد ،اعتزل الشیطان یبکی یقول یا ویلہ ،وفی روایۃ ابی کریب  :یا ویلی امر ابن آدم بالسجود فسجد فلہ الجنۃ  وامرت بالسجود فابیت فلی النار‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ حضور اقدس  صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’جب ابن آدم آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے، شیطان ہٹ جاتا ہے اور رو کر کہتا ہے، ہائے بربادی!اور ابو کریب کی روایت  کےمطابق کہتا ہے،  ہائے میری بربادی!ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا، اس نے سجدہ کیا، اس کے ليے جنت ہے اور مجھے حکم ہوا،تو میں نے انکار کیا، میرے ليے دوزخ ہے۔ (الصحیح لمسلم،صفحہ51 ،مطبوعہ بیروت)

   صحیح بخاری  شریف میں ہے:’’عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما قال کان النبی    صلی اللہ علیہ وسلم  یقرا السجدۃ ونحن عندہ فیسجد ونسجد  فنزدحم حتی ما یجد احدنا لجبھتہ موضعا یسجد علیہ ‘‘سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری موجودگی میں آیت سجدہ تلاوت کرتے ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے ،حتی کہ ہجوم کی وجہ سےکسی کو پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی تھی،جس پر سجدہ کرے ۔(الصحیح لبخاری،صفحہ202 ،مطبوعہ بیروت)

   مزید اس کی برکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  علمائے کرام فرماتے ہیں : جو شخص کسی مقصد کےلیے ایک مجلس میں سجدہ کی سب آیتیں  پڑھ کر سجدے کرے ،اللہ عزوجل  اس کا مقصد پورا فرمادے گا۔چاہے ایک ایک آیت   پڑھ کر اس کا سجدہ کرتا جائے  یا سب کو پڑھ کر آخر میں چودہ سجدے کرلے۔

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں :’’ جس مقصد کےلیے ایک مجلس میں سجدہ کی سب آیتیں  پڑھ کر سجدے کرے ،اللہ عزوجل اس کا مقصد پورا فرمادے گا۔خواہ ایک ایک آیت   پڑھ کر اس کا سجدہ کرتا جائے  یا سب کو پڑھ کر آخر میں چودہ سجدے کرلے۔‘‘ (بھار شریعت،جلد1،صفحہ738 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم