Asar Aur Isha Ki Sunnat Farz Ke Bad Parhna Kaisa ?

عصراورعشاء کی سنتِ قبلیہ فرضوں کے بعد پڑھنا کیسا

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor.12324

تاریخ اجراء: 29 ذوالحجۃ الحرام 1443 ھ/29 جولائی 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عصر اور عشاء کی سنتِ قبلیہ فرض نماز کے بعد پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ سنتیں اگر فوت ہوجائیں ،تو فرض نماز ادا کرنے کے بعدان کی قضا نہیں ،لیکن اگر کوئی پڑھنا چاہے،تو اس میں تفصیل ہے :چنانچہ عصر کی نماز سے پہلے پڑھی جانے والی سنتیں اگر رہ جائیں ،توعصر کی فرض نماز اداکرنے کے بعد پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے کہ یہ نفل ہیں اور عصر کی نماز کے بعدقصداًنوافل پڑھنا مکروہِ تحریمی و ناجائز ہے۔

   عشاء سے پہلے پڑھ جانے والی سنتیں اگر فوت ہوجائیں  اورعشاء کے فرض ادا کر لینے کے بعد اگر کوئی پڑھنا چاہے ، تووہ عشاء کے بعد کی دو سنتیں ادا کرنے کے بعد پڑھ سکتا ہے ، اس میں کوئی ممانعت نہیں ،لیکن اس سے وہ سنتِ مستحبہ ادا نہیں ہوگی ، جو عشا سے پہلے تھیں ، بلکہ ایک نفل نماز ہوگی۔

   مجمع الانھر میں ہے:” النفل بعد الفجر والعصر مكروه مطلقا “یعنی فجر و عصر کے بعد نفل مطلقاً مکروہ ہیں۔ (مجمع الانھر،جلد 1، صفحہ 210،مطبوعہ:کوئٹہ)

   در مختار و تنویر الابصار میں ہے:”(کرہ نفل )قصداولو تحیۃ المسجد۔۔۔ولو سنۃ الفجر(بعد صلاۃ فجر و) صلاۃ (عصر)“یعنی فجر و عصر کی نماز کے بعدقصداً نفل پڑھنا مکروہ ہے،اگرچہ تحیۃ المسجد یا سنتِ فجر ہی ہوں۔

(تنویر الابصار مع الدر المختارملتقطاً، جلد2،صفحہ 44۔45،مطبوعہ:کوئٹہ)

   اس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” والكراهة هنا تحريمية أيضا كما صرح به في الحلية ولذا عبر في الخانية والخلاصة بعدم الجواز“یعنی کراہت یہاں بھی کراہتِ تحریمی ہے جیسا کہ حلیہ میں صراحت فرمائی اور اسی وجہ سے خانیہ و خلاصہ میں عدمِ جواز کے ساتھ تعبیر کیا۔(ردالمحتار، جلد2،صفحہ 44، مطبوعہ:کوئٹہ)

   بقیہ سنتوں کی قضا کے متعلق حکم بیان ہوجانے کے بعد سنتِ عصر کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لم یبق من النوافل القبلیۃ الا سنۃ العصر ومن المعلوم انھا لاتقضی لکراھۃ التنفل بعد صلاۃ العصر“یعنی نوافلِ قبلیہ میں سےصرف سنتِ عصر باقی رہ گئی اور یہ بات معلوم ہے کہ یہ قضا نہیں کی جائیں گی کیونکہ نمازِ عصر کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے۔(ردالمحتار، جلد 2،صفحہ 621، مطبوعہ:کوئٹہ)

   عشاء کی سنتِ قبلیہ کے متعلق امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قولِ فیصل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ یہ سنتیں اگر فوت ہوجائیں ،تو ان کی قضا نہیں ۔علامہ علائی درِ مختار میں فرماتے ہیں:اما ماقبل العشاء فمندوب لایقضی اصلا۔(عشا کے فرائض سے پہلے جو چار رکعتیں ہیں ،وہ مستحب ہیں ،ان کی قضا نہیں۔ت)، لیکن اگر کوئی بعد دو سنتِ بعدیہ کے پڑھے، تو کچھ ممانعت بھی نہیں،علامہ طحطاوی حاشیہ شرح نور الایضاح میں فرماتے ہیں:لامانع من قضاء التی قبل العشاء بعدھا۔(عشا کی پہلی سنتوں کو عشاء کے بعد ادا کر لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ت)۔ ہاں اس شخص سے وہ سننِ مستحبہ ادا نہ ہوں گی، جو عشا سے پہلے پڑھی جاتی تھیں، بلکہ ایک نفل نماز مستحب ہو گی(فتاوی رضویہ ، جلد8،صفحہ 146، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم