Witr Ki Namaz Mein Kitab Se Dekh Kar Dua e Qunoot Parhna

کتاب سے دیکھ کر دعائے قنوت پڑھنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13058

تاریخ اجراء:        07ربیع الثانی1445 ھ/23اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ اگر زید  کو دعائے قنوت یاد نہ ہو اور وہ وتر میں اپنے سامنے رکھی ہوئی کتاب میں سے دیکھ کر دعائے قنوت پڑھ لے۔ تو کیا اس صورت میں زید کی  نماز درست ادا ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز میں دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز  ہے کہ اس میں خارج سے تعلم یعنی سیکھنے کا عمل پایا جاتا  ہے، اور نماز میں کسی سے سیکھنے کا عمل نماز کو توڑ دیتا ہے ، لہذا پوچھی گئی صورت میں زید کا کتاب سے دیکھ کر دعائے قنوت پڑھنا بلا شبہ مفسدِ نماز ہے، زید پر لازم ہے کہ وہ نمازِ وتر کو دوبارہ ادا کرے۔

   یاد رہے کہ نمازِ  وتر میں مشہور  دعائے قنوت پڑھنا سنت ہے ، اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو اسے یاد کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔ نمازی اگر اس معروف دعا کی جگہ کوئی اور دعا  پڑھ لے  جب بھی اس کا دعائے قنوت والا واجب ادا ہوجائے گا اور  نمازِ وتر درست ادا ہو جائے گی۔

   نماز میں مصحف وغیرہ سے دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :” (وقراتہ من مصحف)ای :مافیہ قرآن (مطلقاً)لانہ تعلم۔“ترجمہ: ” قرآن مجید میں دیکھ کر تلاوت کرنا مطلقا مفسدنمازہے ، کیونکہ یہ سیکھنا ہے۔“(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ  ، ج02، ص463، مطبوعہ کوئٹہ)

   بدائع الصنائع میں ہے :أن هذا يلقن من المصحف فيكون تعلما منه ألا ترى أن من يأخذ من المصحف يسمى متعلما فصار كما لو تعلم من معلم وذا يفسد الصلاة وكذا هذا۔یعنی مصحف سے دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں  مصحف سے  سیکھ کر پڑھنا ہے۔  کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو مصحف سے کچھ سیکھے  تو اسے متعلم کہا جاتا ہے پس یہ ایسے ہی ہوگیا کہ جیسے کوئی نماز میں معلم سے تعلیم حاصل کرے تو جیسے معلم والی صورت میں نماز فاسد ہوتی ہے اسی طرح مصحف والی صورت میں بھی نماز فاسد ہوجائے گی۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 236، دار الكتب العلميۃ، بیروت، ملتقطاً)

   حلبۃ المجلی  میں ہے :” انہ یلقن من المصحف او من المحراب، فیکون بعلماً منہ، فصار کما لو تعلم ممن لیس معہ فی الصلاۃ۔“یعنی نمازی کا مصحف یا محراب سے دیکھ کر پڑھنا  اُس سے سیکھنا ہے، پس یہ ایسے ہی ہوگیا کہ جیسےنمازی  اس سے تعلیم حاصل کرے جو اس کے ساتھ نماز میں نہ ہو۔(حلبۃ المجلی فی شرح منیۃ المصلی،  کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 418، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   العنایۃ شرح الھدایۃ  میں ہے :” لأنه تلقن من المصحف وهو كالتلقن من غيره في تحصيل ما ليس بحاصل عنده، والتلقن من الغير مفسد لا محالة فكذا من المصحف۔یعنی نمازی کا مصحف سے دیکھ کر پڑھنا دوسرے سے سیکھنے کی طرح ہے ، اس چیز کو حاصل کرنے میں کہ جو اسے حاصل نہیں ہے، اور غیر سے کچھ سیکھنا لامحالہ مفسدِ نماز ہے اسی طرح مصحف سے سیکھنا بھی مفسدِ نماز ہوگا۔(العناية شرح الهدايۃ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 403، دار الفکر، لبنان)

   نمازی اگر قرآن یا غیرِ قرآن کی طرف فقط نظر کرے اور سمجھے مگر قراءت نہ کرے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔ جیسا کہ حاشیۃ  الطحطاوی على مراقی الفلاح میں ہے :” (لو نظر المصلي إلى مكتوب وفهمه سواء كان قرآنا أو غيره قصد الاستفهام أو لا أساء الأدب ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالكلام)وجه عدم الفساد أنه إنما يتحقق بالقراءة وبالنظر والفهم لم تحصل وإليه أشار المؤلف بقوله لعدم النطق ۔ یعنی نمازی اگر لکھے ہوئے مضمون کی طرف نظر کرے، خواہ وہ قرآن ہو یا غیر قرآن، برابر ہے نمازی اُس مضمون کو سمجھنے کا قصد کرے یا نہ کرے  ، بہر صورت یہ خلافِ ادب  ہے مگر  کلام کے ذریعے نطق نہ کرنے کی وجہ سے اُس  کی نماز فاسد نہ ہوگی۔ یہاں نماز فاسد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فساد صرف پڑھنے کی صورت ہی میں متحقق ہوتا ہے، جبکہ نظر کرنے اور سمجھنے سے یہ چیز حاصل نہیں ہوتی اور مصنف نے " لعدم النطق بالكلام " کے ساتھ اسی بات کی طرف سے اشارہ کیا ہے۔(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، کتاب الصلاۃ، ص 341، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”نماز میں مصحف شریف سے دیکھ کر قرآن پڑھنا مطلقاً مفسد نماز ہے، يوہيں اگر محراب وغيرہ ميں لکھا ہو اسے ديکھ کر پڑھنا بھی مفسد ہے، ہاں اگر یاد پر پڑھتا ہو مصحف یا محراب پر فقط نظر ہے، تو حرج نہیں۔( بہارِ شریعت ، ج 01 ، ص 609 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”اگرچہ مصحف شریف کی طرف نظر کرنا عبادت ہے مگر اس میں دیکھ کر پڑھنا خارج سے تعلم ہے اور یہ منافی نمازجیسے زبان سے حالت نماز میں امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی، اگرچہ یہ دونوں عبادت ہیں مگر چونکہ منافی نماز ہیں لہذا نماز فاسد۔ “ (فتاوٰی امجدیہ ، ج01، ص185، مکتبہ رضویہ ، کراچی)

   مشہور دعائے قنوت کے علاوہ کوئی اور دعا پڑھنے سے متعلق فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”نماز صحیح ہوجانے میں تو کلام نہیں ، نہ یہ سجدہ سہو کا محل کہ سہواً کوئی واجب ترک نہ ہوا ۔ دعائے قنوت اگر یاد نہیں ، یاد کرنا چاہیے کہ خاص اس کا پڑھنا سنت ہے اور جب تک یاد نہ ہو اللھم ربنا اٰتنافی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار پڑھ لیا کرے ۔ یہ بھی یاد نہ ہو ، تو اللھم اغفرلی تین بار کہہ لیا کرے ۔ یہ بھی یادنہ آئے ، تو صرف یارب تین بار کہہ لے ، واجب ادا ہوجائے گا۔“(فتاوٰی رضویہ،ج07،ص485، رضافاؤنڈیشن، لاهور )

   بہارِ شریعت میں ہے:” دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے اور اس میں کسی خاص دعا کا پڑھنا ضروری نہیں، بہتر وہ دعائیں ہیں جو نبی صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم سے ثابت ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور دعا پڑھے ، جب بھی حرج نہیں ۔ “( بہارِ شریعت ، ج 01 ، ص 654 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم