Khutba Ke Doran Khateeb Ka Logon Ki Gardanien Phalngne Se Mana Karna ?

خطبہ کے دوران خطیب کا لوگوں کی گردنیں پھلانگنے سے منع کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0180

تاریخ اجراء: 17صفر المظفر1445ھ/04ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے  کے بارےمیں  کہ میں ایک جامع مسجد کا امام ہوں،کبھی کبھار خطبہ دیتے وقت چند لوگ مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئےآگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ جگہ بھی نہیں ہوتی اور وہ صفوں کے درمیان بیٹھ جاتے ہیں، ان کے اس فعل سے کئی لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور خطبہ ادا کرنے اورسننے میں بھی تکلیف ہوتی ہے،اس وجہ  سےبعض اوقات میں خطبہ کے دوران ہی ایسے اشخاص کو ٹوک دیتا ہوں کہ آگے نہ آئیں جہاں ہیں ،وہیں بیٹھ جائیں ۔

   پوچھنا یہ ہےکہ کیا  خطبہ کے دوران خطیب  کواس طرح روکنے ٹوکنے کی اجازت ہے اور اس کی وجہ سےخطبہ دوبارہ سے تو نہیں پڑھنا پڑے گا ؟کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خطبہ نماز کی طرح ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خطبہ کے دوران اگر چہ خطیب کا بھی بلا ضرورت گفتگو کرنا ، مکروہ ہے ،لیکن اس کے لیے  نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا  بلا کراہت جائز ہے، اگرچہ اردو  وغیرہ  زبان میں ہو اور اس سے خطبہ فاسد نہیں ہوتا  کہ اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم ہو، کیونکہ اس معاملہ میں یہ نماز کی طرح نہیں۔

   اور گردن پھلانگ کر دوسروں کو اذیت دینے والے شخص کو روکنے کے متعلق تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مبارک وارد ہے،  چنانچہ  سنن ابن ماجہ  میں ہے:” عن جابر بن عبد اللہ، أن رجلا دخل المسجد يوم الجمعة، ورسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يخطب، فجعل يتخطى الناس، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: اجلس، فقد آذيت وآنيت ترجمہ: حضرت  جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ  ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ،تو وہ(آگے آنے کے لیے )  لوگوں کی گردنیں پھلانگنے لگا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہیں) بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف دی اور آنے میں تاخیر کی۔(سنن ابن ماجہ،ج1،ص354،طبع دار احیاء الکتب العربیہ) (صحیح ابن حبان،ج7،ص29)(سنن أبی داؤد،ج1،ص292)(سنن نسائی،ج3،ص103) (صحیح ابن خزیمہ،ج3،ص103)(مسند امام احمد بن حنبل،ج29،ص221)(شرح معانی الآثار،ج1،ص363)

   حاکم نے مستدک میں  حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ نقل کیا اور فرمایا:” هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه “ ترجمہ:یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور شیخین رحمھما اللہ نے اسے روایت نہیں فرمایا۔(المستدرك على الصحيحين للحاكم ،ج1،ص424،دار الکتب العلمیہ)

   خطیب کے خطبہ کے دوران کلام کرنے سے خطبہ فاسد نہیں ہوتا  کہ اسے دوبارہ سے پڑھا جائے، علامہ علاؤالدین ابو بکر بن مسعود کاسانی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”ويكره للخطيب أن يتكلم في حالة الخطبةولو فعل لا تفسد الخطبة؛ لأنها ليست بصلاة فلا يفسدها كلام الناس“ ترجمہ: خطیب کے لیے دورانِ خطبہ گفتگو کرنا ،مکروہ ہے اور اگر کی ،تو خطبہ فاسد نہیں ہوگا ،کیونکہ یہ نماز نہیں کہ لوگوں سے کلام اسے فاسد کردے۔(بدائع الصنائع، ج1،ص265،دار الکتب العلمیہ)

   علامہ حدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”قلنا ليست كالصلاة؛ لأنها تؤدى مستدبر القبلة ولا يفسدها الكلام“ ترجمہ:خطبہ (من کل الوجوہ)  نماز کی طرح نہیں   کہ یہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے  ادا کیا جاتا ہے اور کلام اسے فاسد نہیں کرتا۔(الجوهرة النيرہ،ج1،ص89،المطبعۃ الخیریہ)

   اور خطیب کا دورانِ خطبہ کلام کرنا، مکروہ ہے  کہ خطبہ  اذان کی طرح منظوم مشروع ہے اور  کلام یہ نظم توڑ دیتا ہے، لیکن نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چونکہ خطبےکا حصہ ہے اس لیے یہ مکروہ بھی  نہیں، چنانچہ علامہ علاؤالدین ابو بکر بن مسعود کاسانی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”ويكره للخطيب أن يتكلم في حالة الخطبةولو فعل لا تفسد الخطبة؛ لأنها ليست بصلاة فلا يفسدها كلام الناس لكنه يكره؛ لأنها شرعت منظومة كالآذان والكلام يقطع النظم إلا إذا كان الكلام أمرا بالمعروف فلا يكره۔۔۔ لأن الأمر بالمعروف يلتحق بالخطبة؛ لأن الخطبة فيها وعظ فلم يبق مكروها “ ترجمہ:خطیب کے لیے حالت خطبہ میں کلام کرنا، مکروہ ہے اور اگر کیا، توخطبہ  فاسد نہیں ہوگا  کیونکہ خطبہ نماز نہیں کہ کلام الناس اسے فاسد کردے، لیکن مکروہ ہے کہ یہ اذان کی طرح منظوم مشروع ہے اور کلام اس نظم کو توڑ دیتا ہے الا یہ کہ وہ کلام امر بالمعروف ہو، تو مکروہ نہیں ۔۔۔ کیونکہ امر بالمعروف خطبہ سے ملحق ہے، کیونکہ خطبے میں وعظ ہوتا ہے ،تو یہ مکروہ نہ رہا۔(بدائع الصنائع،ج1، ص265،دار الکتب العلمیہ)

   یونہی فتح القدیر،نہر الفائق، ہندیہ،در مختار اور رد المحتار میں ہے،محقق علی الاطلاق ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” فرع: يكره للخطيب أن يتكلم في حال الخطبة للإخلال بالنظم إلا أن يكون أمرا بمعروف ترجمہ: خطیب کے لیے  دوران خطبہ کلام کرنا ،مکروہ ہے کہ اس سے نظم خطبہ میں خلل واقع ہوگا ،الا یہ کہ امر بالمعروف ہو۔(فتح القدير شرح الھدایۃ،ج2،ص60،دار الفکر، بیروت) (النهر الفائق شرح كنز الدقائق ،1ج، ص364،دار الکتب العلمیۃ) (الفتاوى الهندية،ج1،ص147،دار الفکر، بیروت) (در مختار مع رد المحتار،ج2،ص149، 159،دار الفکر، بیروت)

   شیخ الاسلام ،امام احمد رضا خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ہاں اگر اثنائے خطبہ میں مثلاً: کسی ہندی کو کوئی فعل ناجائز کرتے دیکھا جیسے خطبہ ہونے کی حالت میں  چلنا یا پنکھا جھلنا اور وہ عربی نہیں جانتا تو اردو میں اسے منع کرے کہ یہ حاجت یونہی رفع ہوگی۔(فتاوی رضویہ، ج8،ص472،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”خطبہ میں کلام کرنا، مکروہ ہے ،البتہ اگر خطیب نے نیک بات کا حکم کیا یا بُری بات سے منع کیا، تو اسے اس کی ممانعت نہیں۔“(بھارِ شریعت،ج1،حصہ4،ص769،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم