Khushu Ka Kya Matlab Hai ?

 

خشوع کا کیا مطلب ہے؟

مجیب:مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3018

تاریخ اجراء: 24صفر المظفر1446 ھ/30اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   خشوع کاکیامطلب ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خشوع کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں ، حاصل یہ ہے کہ یہ دل کی کیفیت ہے کہ بندے کے دل میں اللہ پاک کی عظمت وجلال پیش نظر ہو ،البتہ بندے کے دل میں خشوع ہو تو اس کا اظہار اس کے اعضا ءسے بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ پاک کی نافرمانی  بلکہ بہت سے مباح امور سے اللہ پاک سے حیا کرتےہوئے بچتا ہے ۔

   اورنماز میں  خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں  پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں  کنارے لٹکتے ہوں  اور آپس میں  ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں  نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں  دل لگا ہو۔

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ، الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ترجمہ کنزالایمان : بے شک مراد کو پہنچے  ایمان والے ،جو اپنی  نماز میں گڑ گڑاتے  ہیں ۔(القرآن، پارہ 18، سورۃ المؤمنون ، آیت: 1 ، 2)

   اس آیت مقدسہ کی تفسیر میں  مفتی اہلسنت مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی تفسیر صراط الجنان میں لکھتے ہیں : ”نماز میں  خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں  پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں  کنارے لٹکتے ہوں  اور آپس میں  ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں  نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں  دل لگا ہو۔ "(صراط الجنان ، ج 6، ص 496،مکتبۃ المدینہ )

   خشوع کے حوالے سے علامہ سید طحطاوی  حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :”الخشوع ، حضور القلب ، و تسکین الجوارح  و المحافظۃ علی  الارکان ،قھستانی “ترجمہ : خشوع ، دل کا حاضر ہونا ، اعضاء کا پرسکون ہونا اور ارکان کی حفاظت کرنا ہے، بحوالہ قہستانی ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،ص 345، دار الكتب العلمية، بيروت)

   نوٹ:نماز میں خشوع و خضوع کی بڑی اہمیت ہے مگر اس کا معنی یہ نہیں  کہ خشوع صرف نماز کے ساتھ خاص ہے بلکہ جب خشوع سے مراد دل میں اللہ پاک کی عظمت و جلال کا ہونا ہے تو یہ ہر وقت ہر لمحہ ہونا چاہیے ۔اسی سلسلے میں تصوف کے زبردست امام ، حجۃ الاسلام سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”(ترجمہ)جان لیجئے کہ خشوع ایمان کا پھل اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے جلال سے حاصل ہونے والے یقین کا نتیجہ ہے۔ جسے یہ حاصل ہوجائے وہ نماز میں اور نماز سے باہر بلکہ تنہائی میں۔۔۔ خشوع اپناتا ہے، کیونکہ خشوع کا موجب (سبب وعِلَّت)اس بات کی پہچان ہے کہ اللہ عزوجل بندے پر مطلع ہے، نیز بندہ اللہ عزوجل  کے جلال اور اپنی کوتاہی کی معرفت رکھتا ہے، انہی باتوں کی پہچان سے خشوع حاصل ہوتا ہے اور یہ نماز کے ساتھ خاص نہیں اسی لیے بعض بزرگوں کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے اللہ عزوجل سے حیا کرتے اور اس سے ڈرتے ہوئے 40سال تک آسمان کی طرف سر نہیں اٹھایا۔" (احیاء العلوم(مترجم)،ج 1،ص 529،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم