Khilaf e Tarteeb Qirat Karne Par Imam Ko Luqma Dena Aur Imam Ka Luqma Qabool Karna Kaisa?

خلافِ ترتیب قراءت کرنے پر امام کو لقمہ دینا اور امام کا لقمہ قبول کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12721

تاریخ اجراء:24رجب المرجب1444ھ/16فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام صاحب نے نماز فجرکی  پہلی رکعت میں 29 ویں پارے سے سورہ قلم کی تلاوت کی اور دوسری رکعت میں اٹھائیسویں پارے سے تلاوت شروع کردی اور پوری ایک آیت پڑھ دی کہ پیچھے سے ایک مقتدی نے بلند آواز سے ”قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ“پڑھتے ہوئے امام کو لقمہ دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ نماز میں الٹا قرآن نہیں پڑھ سکتے، امام صاحب نے اس کا لقمہ قبول کرلیا۔

   اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں امام اور مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں امام صاحب اور مقتدیوں کی نماز فاسد ہوگئی۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ  ترتیب کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا واجب ہے اور جان بوجھ کر اُلٹا قرآن پاک پڑھنا مثلاً نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ فلق اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھنا مکروہ تحریمی ،ناجائز و گناہ ہے، لیکن خلافِ ترتیب قرآن اگر بھولے سے پڑھا جائے تو اس صورت میں گناہ نہیں بلکہ یہاں حکمِ شرع یہ ہے کہ جس سورت کا ایک لفظ نمازی کی زبان سے نکل جائے، خواہ وہ سورت پہلے کی ہو یا بعد کی اُسی کا پڑھنا اس نمازی پر لازم ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ خلافِ ترتیب قرآن پڑھنا قصداً ہو یا سہواً   اس کی وجہ سےبہر صورت نمازی پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،کیونکہ قرآن پاک کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا یہ نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے بلکہ تلاوت کے واجبات میں سے ہے۔  جہاں تک نماز میں لقمہ دینے کی بات ہے تو نماز میں ضرورتاً  اصلاحِ نماز (مثلاً نماز کو فاسد ہونے یا واجب الاعادہ ہونے سے بچانے) کے لیے لقمہ دینے کی فقہائے کرام نے اجازت دی ہے،  لیکن اس کے علاوہ بے محل بے فائدہ لقمہ دینے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

   اس تفصیل سے واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں مقتدی نے خلافِ ترتیب قراءت کرنے پر امام صاحب کو جو لقمہ دیا تھا وہ بے محل اور غلط لقمہ تھا  کیوں کہ  یہاں امام صاحب نے نماز کے کسی واجب کو تو ترک کیا نہیں اور نہ ہی اس مقام پر امام صاحب کو تلاوت چھوڑنے کی اجازت بھی نہیں تھی لھذا لقمہ بے محل ہوا ، لقمہ دیتے ہی وہ مقتدی تو اسی وقت نماز سے باہر ہوگیا  ،اس کی نماز ٹوٹ گئی اور امام صاحب نے ایسے شخص کا لقمہ لیا  جو نماز سے باہر ہوگیا تھا، لہذا لقمہ قبول کرتے ہی امام کی، اور امام کے ساتھ ساتھ  تمام مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوگئی۔

   بے محل لقمہ دینے کےحوالے سے فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”و تفسد صلاتہ بالفتح مرۃ و لا یشترط فیہ التکرار و ھو الاصح “ یعنی بے محل ایک مرتبہ ہی لقمہ دینے سے نماز فاسد ہوجائے گی اس میں تکرار شرط نہیں اور یہی اصح قول ہے ۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ،  ج 01،ص  99،مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی فقیہ ملت میں سوال ہوا کہ”زید نے پہلی رکعت میں "تَبَّتْ یَدَا" اور دوسری میں "اِذَا جَآءَ" پڑھی تو اس کی نماز ہوئی یا نہیں؟ اگر اس نے قصداً خلاف ترتیب پڑھا تو کیا حکم ہے اور سہواً پڑھا تو کیا حکم ہے؟ اور اگر کسی نے لقمہ دیدیا تو لقمہ دینا اور لینا کیسا ہے؟“اس کے جواب میں مذکور ہے:”صورتِ مسئولہ میں زید کی نماز ہوگئی البتہ اگر اس نے بے ترتیبی سے سہواً پڑھا تو کچھ حرج نہیں اور قصداً پڑھا تو گنہگار ہوا۔ ۔۔اور خلافِ ترتیب پڑھنے کے بعد اگر کسی نے لقمہ دیدیا تو اس کا لقمہ دینا اور امام کا اسے قبول کرنا جائز نہیں کہ امام کو اوپر والی سورت شروع کرنے کے بعد اسی کو پورا کرنے کا حکم ہے اسے چھوڑ کر بعد والی سورت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ۔۔۔ایسی صورت میں لقمہ دینے والے کی نماز بے جا لقمہ دینے کے سبب فاسد ہوگئی اور اگر امام نے ایسا لقمہ لے لیا تو امام کی اور اس کے ساتھ سب کی نماز خراب ہوگئی۔ (فتاوٰی فقیہ ملت   ، ج 01،ص  165، شبیر برادرز، ملتقطاً  و ملخصاً)

   مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد  فرماتے ہیں:”نماز ایسی عبادت ہے کہ حالت نماز میں کسی کو سکھانا یا کسی سے سیکھنا دونوں ناجائز ہیں یعنی کسی کو لقمہ دینا یاکسی سے لقمہ لینا ۔مگرضرورتاً اصلاح نماز کےقصد سے جائزرکھاگیا ،اورقاعدہ یہی ہےکہ ضرورتاً جائز اور بغیر ضرورت اگر لقمہ دیا جائے تو لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہوجائےگی ، اور اگر امام لےلےگا  تو سب کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔“(وقار الفتاویٰ،ج 02،ص 235، بزم وقار الدین، ملتقطاً )

   خلافِ ترتیب قراءت کرنے کے سبب سجدۂ سہو واجب نہ ہونے کے متعلق فتاوٰی شامی میں ہے: ” يجب الترتيب في سور القرآن، فلو قرأ منكوسا أثم لكن لا يلزمه سجود السهو لأن ذلك من واجبات القراءة لا من واجبات الصلاة كما ذكره في البحر في باب السهو ۔ “یعنی سورتوں کے درمیان ترتیب رکھنا واجب ہے ،لہٰذا اگر کسی نے اُلٹا قرآن پڑھا ،تو گنہگار ہو گا ، لیکن اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہو گا ،کیونکہ یہ قراءت کے واجبات میں سے ہے، نماز کے واجبات سے نہیں،جیساکہ اسے بحر الرائق میں سہو کے بیان میں ذکر کیا۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، ج02، ص183، مطبوعہ  کوئٹہ)

   فتاوٰی رضویہ میں اس حوالے سے مذکور ہے : ” نماز ہو یا تلاوت بطریق معہود ہو، دونوں میں لحاظِ ترتیب واجب ہے، اگر عکس کرے گا گنہگار ہوگا۔۔۔امام نے سورتیں بے ترتیبی سے سہواً پڑھیں ،تو کچھ حرج نہیں ،قصداً پڑھیں تو گنہگار ہوا، نماز میں کچھ خلل نہیں۔ “ (فتاوٰی  رضویہ، ج06،ص239، رضا فاؤنڈیشن،لاھور، ملتقطاً)

   جس سورت کا ایک لفظ زبان سے نکل جائے اُسی کا پڑھنا لازم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ درِ مختار  میں ہے: في القنية قرأ في الأولى الكافرون وفي الثانية "ألم تر "أو "تبت" ثم ذكر يتمیعنی قنیہ میں ہے کہ نمازی نے پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری میں "ألم تر" یا "تبت" شروع کی پھر یاد آیا تو ان سورتوں کو ہی پورا کرے۔

    (ثم ذكر يتم)کے تحت رد المحتار میں ہے: أفاد أن التنكيس أو الفصل بالقصيرة إنما يكره إذا كان عن قصد، فلو سهوا فلا كما في شرح المنية. وإذا انتفت الكراهة فإعراضه عن التي شرع فيها لا ينبغي۔ وفي الخلاصة افتتح سورة وقصده سورة أخرى فلما قرأ آية أو آيتين أراد أن يترك تلك السورة ويفتتح التي أرادها يكره اهـ. وفي الفتح: ولو كان أي المقروء حرفا واحدایعنی یہاں اس بات کا فائدہ حاصل ہوا کہ خلافِ ترتیب قرآن پڑھنا یا درمیان سے کسی چھوٹی سورت کو چھوڑدینا اسی وقت مکروہ ہے کہ جب قصداً ایسا کیا ہو پس اگر سہواً ایسا ہوجائے تو اس میں حرج نہیں جیسا کہ شرح المنیۃ میں مذکور ہے۔ جب کراہت کی نفی ہوگئی تو نمازی کا اس سورت سے اعراض کرنا  جسے وہ شروع کرچکا تھا قطعاً مناسب نہیں۔ خلاصہ میں ہے کہ کسی نے سورت شروع کی جبکہ اس کا ارادہ دوسری سورت پڑھنے کا تھا پس جب وہ ایک یا دو آیات پڑھ چکا تو اس نے ارادہ کیا کہ اس سورت کو چھوڑدے اور اس سورت کو شروع کرے جس کا اس نے ارادہ کیا تھا تو یہ مکروہ ہے، الخ۔ فتح القدیر میں ہے کہ اگر چہ  اس نے ایک ہی حرف پڑھا ہو ۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، ج02، ص330، مطبوعہ  کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہواکہ”اوّل رکعت میں ایک رکوع یا سورہ پڑھی دوسری رکعت میں اگر اس سے مقدم کی سورہ یا رکوع زبان پر سہواً جاری ہوجائے تو اس کو پڑھے یا مؤخر کی سورہ یا رکوع پڑھے اس کو چھوڑ کر، اگر پڑھ کر نماز تمام کرلی تو ہوئی یا نہیں؟“آپ علیہ الرحمہ نے جواب ارشاد فرمایا:” زبان سے سہواً جس سورہ کا ایک کلمہ نکل گیا اسی کا پڑھنا لازم ہوگیا ، مقدم ہو خواہ مکرر ،ہاں قصداً تبدیلِ ترتیب گناہ ہے اگر چہ نماز جب بھی ہوجائے گی۔ “(فتاوٰی رضویہ،ج06،ص 350، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہواکہ” اول رکعت میں سورہ کافرون پڑھی دوسری میں کوثر کی ایک آیت پڑھی پھر اس کو چھوڑ کر اخلاص پڑھی ، ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟اور نمازمیں کچھ خلل واقع ہوگا یا نہیں؟“آپ علیہ الرحمہ نے جواب ارشاد فرمایا:” نماز تو ہو گئی مگر ایسا کرنا ناجا ئز تھا، جس سورت کا ایک لفظ زبان سے نکل جائے اُسی کا پڑھنا لازم ہوجاتا ہے خواہ وہ قبل ہو یا بعد کی۔ “ (فتاوٰی رضویہ،ج06،ص 353-352، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”بھول کر دوسری رکعت میں اوپر کی سورت شروع کر دی یا ایک چھوٹی سورت کا فاصلہ ہوگیا، پھر یاد آیا تو جو شروع کر چکا ہے اسی کو پورا کرے اگرچہ ابھی ایک ہی حرف پڑھا ہو، مثلاً پہلی میں  قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَفِرُوْنَ پڑھی اور دوسری میں  اَلَمْ تَرَکَیْفَ یا تَبَّتْ شروع کر دی، اب یاد آنے پر اسی کو ختم کرے، چھوڑ کر اِذَا جآءَ پڑھنے کی اجازت نہیں۔ “ (بہار شریعت، ج 01، ص  550، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم