Jumma Mein Sajda Sahw Nahi Kiya Tu Kya Namaz Dobara Parhni Hogi?

جمعہ میں سجدہ سہو لازم ہوا اور نہیں کیا تو کیا نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: AQS-2693

تاریخ اجراء:24ربیع الآخر 1446ھ/28اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اس جمعۃ المبارک کو میں جماعت کروا رہا تھا، تو میں نے  بھول کر آہستہ آواز میں قراءت شروع کر دی، مقتدیوں میں سے کسی نے لقمہ نہیں دیا، یہاں تک کہ ﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴾ پڑھ کر مجھے یاد آیا اور پھر میں نے اس کے بعد باقی سورہ فاتحہ اور سورت جہری پڑھی، لیکن آخر میں سجدہ سہو نہیں کیا اور نماز مکمل کر لی۔ میرے ذہن میں تھا کہ جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو لازم ہوجائے تو سجدہ سہو نہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس وجہ سے میں نے سجدہ سہو نہیں کیا۔شرعی رہنمائی فرما دیں کہ اس واقعہ کوکچھ دن گزر گئے ہیں، ہماری اس نماز کا کیا حکم ہے؟

   نوٹ: اس مسجد میں جمعہ کی نماز اسپیکر پر پڑھائی جاتی ہے اوربآسانی آواز تمام نمازیوں تک پہنچ جاتی ہے، کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہوتا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کی وہ نماز واجب الاعادہ ہوگئی ہے، اس نماز میں جتنے بھی نمازی شامل تھے، ان سب کو اُس دن کی ظہر کی چار رکعات کا اعادہ کرنا لازم ہے، کیونکہ جمعہ و عیدین کی نماز میں امام پر جہری قراءت کرنا واجب ہے کہ اگر بھول کر ایک آیت کی مقدار سری قراءت کر لے، تو اس پر سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے(اِلَّا یہ کہ اکثر فاتحہ سے پہلے دوبارہ جہری کا اعادہ کر لے، تو سجدہ سہو ساقط ہوجاتا ہے، بہرحال جب سجدہ سہو لازم ہوگیا)اور سجدہ سہو نہیں کیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوجاتی ہے اور نمازِ جمعہ کسی واجب کے ترک یا مکروہِ تحریمی فعل کے سبب واجب الاعادہ ہوجائے اور اس کا وقت نکل جائے، تو اس دن کی ظہر کی چار رکعات کا اعادہ کرنا لازم ہوتا ہے۔

جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو کا حکم:

   جمعہ و عیدین میں عام نمازوں کی نسبت زیادہ تعداد ہوتی ہے، بالخصوص پہلے دور میں نمازیوں کی کثرت ہوا کرتی تھی اور اُس دور میں مائیک،  لاؤڈ اسپیکر وغیرہ بھی نہیں ہوا کرتے تھے، تو آخری صف کے نمازیوں تک آواز پہنچانے کے لیے مکبرین کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اُس وقت متاخرین فقہائے کرام نے فرمایا کہ اگر جمعہ و عیدین میں سجد سہو لازم ہوجائے، تو امام سجدہ سہو کا سلام پھیرے گا، لیکن لوگوں کو  پتا نہیں چلے گا کہ یہ سجدہ سہو کا سلام ہے یا ختمِ نماز کا، جس وجہ سے لوگ ختمِ نماز کا سمجھ کر سلام پھیر دیں گے اور یوں ان کی نماز ضائع ہوجائے گی، اس لیے امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو نہ کرے اور ساتھ بہت واضح طور پر یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاں اتنی کثرت نہ ہو، جس سے اشتباہ والا عذر پایا جائے، تو وہاں یہ رخصت نہیں ہے، اُس وقت پھر اصل یعنی سجدہ سہو کرنے کا ہی حکم ہوگا۔

   فی زمانہ دیکھا جائے، تو یہ اشتباہ والا عذر بہت جگہ  نہیں پایا جاتا، کیونکہ ہمارے یہاں عمومی طور پر مائیک اور لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ نمازیں ہوتی ہیں(اور آپ کی مسجد میں بھی جمعہ کی نماز اسپیکر پر ہی ہوتی ہے) جس کے ساتھ جیسے پہلی صف کے نمازی کو آواز جاتی ہے، اسی لمحے آخری صف والے نمازی کو بھی آواز جاتی ہے، جس وجہ سے کسی قسم کا اشتباہ نہیں رہتا، بلکہ دوسری طرف یہ پوائنٹ موجود ہوتا ہے کہ لوگوں کو سجدہ سہو لازم ہونے کا تو پتہ چل گیا ہوگا، لیکن سجدہ سہو کیا نہیں، اس کی وجہ سے لوگوں میں تشویش باقی رہے گی، تو اب سجدہ سہو کرنے کا ہی حکم ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ پر سجدہ سہو لازم ہوچکا تھا، جو نہیں کیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوگئی اور نماز جمعہ کا وقت بھی نکل چکا تھا، اس لیے اب  ظہر کی  نماز کی نیت سے چار رکعات کا اعادہ لازم ہےجو ہر کوئی تنہا تنہا پڑھے گا، لہٰذااگلے جمعہ میں  اس کا اعلان کردیا جائے۔

جہری نماز میں سری قراءت کرنے سے متعلق جزئیات:

   مبسوطِ سرخسی میں ہے:وإن جهر الإمام فيما يخافت فيه أو خافت فيما يجهر به يسجد للسهو لأن مراعاة صفة القراءة في كل صلاة بالجهر والمخافتة واجب على الإمام، فإذا ترك فقد تمكن النقصان والتغير في صلاته فعليه السهو ترجمہ: سری نماز میں امام اگر جہری قراءت کر لے، یا جہری نماز میں سری قراءت کر لے، تو سجدہ سہو کرے گا، کیونکہ ہر نماز میں قراءت کی جہری اور سری صفت کی رعایت کرنا امام پر واجب ہے، تو جب اس واجب کو ترک کیا، تو نماز میں نقصان اور تغیر واقع ہوا، جس وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔(المبسوط للسرخسی، کتاب الصلوٰۃ، باب سجود السھو، جلد 1، صفحہ 222، مطبوعہ بیروت)

   سورہ فاتحہ کی کچھ آیات سری پڑھنے کے بعد جہراً اعادہ کر لیا تو سجدہ سہو ساقط ہوجاتا ہے، چنانچہ جد الممتار میں ہے:”ان لو خافت ببعض الفاتحۃ یعیدہ جھرا لان تکرار البعض لایوجب السھو ولا الاعادۃ و الاخفاء بالبعض یوجبہ فبالاعادۃ جھراً یزول الثانی ولا یلزم الاول فلیراجع و لیحرر“ ترجمہ: اگر سورۂ فاتحہ کا بعض حصہ سری پڑھا، تو جہر پڑھنے کے ساتھ اُس کا اعادہ کرے، کیونکہ بعض کا تکرار نہ تو سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اور نہ ہی نماز کا اعادہ لازم ہوتا ہے، جبکہ سورۂ فاتحہ کا کچھ حصہ( جہری نماز میں) سری پڑھنا سجدہ سہو لازم کرتا ہے، تو( سری پڑھا ہوا حصہ) دوبارہ جہری پڑھنے سے دوسرا(یعنی اعادے کا وجوب) زائل ہوجائے گا اور پہلا(یعنی سجدہ سہو)بھی لازم نہیں رہے گا۔اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسے ہی تحریر کرنا چاہیے۔(جد الممتار، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی القراءۃ، جلد3، صفحہ 237، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھتا رہا، پھر بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا، تو اگر سورۂ فاتحہ کا اکثر حصہ پڑھ لیا تھا، پھر شروع سے پڑھنا شروع کیا ، تو بھی سجدہ سہو واجب کہ یہ اکثر سورہ فاتحہ کی تکرار ہوئی اور یہ موجبِ سجدہ سہو ہے۔ اگر دونوں دفعہ بلا قصد سہواً ہوا ہو تو، اور اگر بالقصد تکرار کی، تو اعادہ واجب اور اگر سورہ فاتحہ کا اکثر حصہ نہیں پڑھا تھا، تو نہ سجدہ سہو ہے نہ اعادہ۔“(حاشیہ فتاویٰ امجدیہ، جلد 1،صفحہ 282، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:” امام نے جہری نماز میں بقدر جواز نماز یعنی ایک آیت آہستہ پڑھی یا سرّی میں جہر سے تو سجدۂ سہو واجب ہے اور ایک کلمہ آہستہ یا جہر سے پڑھا تو معاف ہے۔(بھارِ شریعت، حصہ4، جلد1، صفحہ714، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اور سجدہ سہو لازم ہونے کے بعد نہیں کیا، تو نماز واجب الاعادہ ہونے سے متعلق فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں:”واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب، اور اگر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، صفحہ  276، مکتبہ رضویہ، کراچی(

جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو سے متعلق جزئیات:

    رد المحتار میں ہے: المختار عند المتأخرين أن لا يسجد للسهو في الجمعة والعيدين بحر وليس المراد عدم جوازه بل الأولى تركه كي لا يقع الناس في فتنة ترجمہ:متاخرین فقہائے کرام کے نزدیک مختار یہ ہے کہ امام جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو نہ کرے ۔ البحر الرائق ۔ اس کی یہ مراد نہیں ہے کہ سجدہ سہو کرنا ، جائز نہیں ہے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ سجدہ سہو نہ کرنا اَولیٰ ہے ، تاکہ لوگ آزمائش میں مبتلا نہ ہوجائیں۔(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد3، کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ، صفحہ37، مطبوعہ کوئٹہ)

   مراقی الفلاح میں ہے:”لا يأتي الإمام بسجود  السهو في الجمعة والعيدين دفعا للفتنۃ بکثرۃ الجماعۃ“ترجمہ:امام جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو نہیں کرے گا، کثرتِ جماعت کی وجہ سے (پیدا ہونے والے )فتنہ کو ختم کرنے کے لیے۔

   اِس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:قوله:"بكثرة الجماعة" الباء للسببية وهي متعلقة بقوله للفتنة وأخذ العلامة الواني من هذه السببية أن عدم السجود مقيد بما إذا حضر جمع كثير أما إذا لم يحضروا فالظاهر السجود لعدم الداعي إلى الترك وهو التشويش“ترجمہ:(مذکورہ بالا عبارت میں) ”بکثرۃ الجماعۃ“ میں با سببیت کی ہے اور یہ ”فتنۃ“ کے متعلق ہے ، اسی سببیت والے معنیٰ کی وجہ سے علامہ ابن مصطفیٰ الوانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ سجدہ سہو ترک کرنے کی اجازت اس چیز سے مقید ہے کہ جب نمازی کثرت سے ہوں (جس سے فتنہ اور آزمائش کا سامنا ہو )اور اگر اتنی کثرت سے نہیں ہیں ، تو پھر ظاہر یہی ہے کہ سجدہ سہو کرنا ہوگا ، کیونکہ سجدہ سہو کے ترک کا داعی مفقود ہوگیا ہے اور وہ داعی تھا لوگوں میں تشویش کا پیدا ہوجانا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب سجود السھو ، جلد 2 ، صفحہ 66 ، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ ، کراچی)

   اسی طرح شیخ الاسلام و المسلمین سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بھی اس علت کے مفقود ہونے پر سجدہ سہو کے لازم ہونے اور سجدہ سہو نہ کرنے پر نماز واجب الاعادہ ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں: ” اگر ایک بار بھی بقدرادائے رکن مع سنت یعنی تین بار سبحان اﷲ کہنے کی مقدار تک تامل کیا سجدہ سہو واجب ہوا،اگر نہ کیا نماز مکروہ تحریمی ہوئی جس کا اعادہ واجب۔ اصل حکم یہ ہے مگر علماء نے جمعہ وعیدین میں جبکہ جمع عظیم کے ساتھ اداکئے جائیں بخوف فتنہ سجدہ سہو کا ترک اولیٰ رکھا ہے۔۔۔۔ بس جہاں جمعہ بھی جماعت عظیم سے نہ ہوتا ہو بلاشبہ سجدہ کرے، اگر نہ کیا اعادہ کرے، اگر وقت نکل گیا ظہر پڑھ لیں۔(فتاویٰ رضویہ، جلد8، صفحہ178،  179، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:”ایک منٹ تو بہت ہوتا ہے، اگر بقدر تین تسبیح کے بھی ساکت رہا تو سجدہ سہو لازم ہے، اصل حکم یہی ہے، ردالمحتار میں خاص اس کی تصریح ہے مگر نماز جمعہ میں جبکہ ہجومِ نمازیاں کثیر ہو سجدہ سہو  ساقط کردیاگیا ہے کما فی ردالمحتار ایضا(جیسا کہ ردالمحتار میں بھی ہے۔)پس اس نماز میں ہجوم کثیر تھا، زید نے سجدہ سہو کا ترک بجا کیا اور اگر تھوڑے آدمی تھے تو بے جا اور سخت بے جا، اور وہ ناقص نماز ہوئی ظہرکا اعادہ کریں۔(فتاویٰ رضویہ، جلد8، صفحہ 179، 180، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم