Jumma Mein Aakhri Do Sunnatain Muakkadah Hain Ya Ghair Muakkadah

جمعہ میں آخری دو سنتیں مُؤکدہ ہیں یا غیر مُؤکدہ ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2319

تاریخ اجراء:       23صفر المظفر 1444ھ/22ستمبر  2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نمازِ جمعہ میں فرضوں کے بعد جو چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں ، ان کے بعد والی دو سنتیں مُؤکدہ ہیں یا غیر مُؤکدہ ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازِجمعہ میں فرضوں سے پہلے والی چار سنتیں بِالْاِتفاق سنتِ مُؤکدہ ہیں ، البتہ فرضوں کے بعد والی سنتوں میں اختلاف ہے ۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَاکے نزدیک فرضوں کے بعد صرف چار رکعات سنتیں ہیں اور وہ مؤکدہ ہیں ، ان کے علاوہ سنتیں نہیں ہیں ، جبکہ امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے نزدیک فرضوں کے بعد ان چار رکعات سنتِ مؤکدہ کے بعد مزید دو سنتیں ہیں ، لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے نزدیک بھی یہ مؤکدہ نہیں ،غیر مؤکدہ ہیں، ان کا پڑھنا افضل ہے اور ان کو پڑھنے کا ہی اہتمام کرنا چاہیے ، یہی موقف زیادہ احتیاط والا ، افضل اور مختار ہے اور اسی پر اکثر مشائخ کا عمل ہے ۔

   جمعہ کے فرضوں سے پہلے والی چار سنتوں کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ہے : ”عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یرکع قبل الجمعۃ اربعا لا یفصل فی شیء منھن ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم جمعہ سے پہلے اکٹھی چار رکعتیں بلا فصل اَدا فرماتے تھے ۔       (سنن ابن ماجہ ،کتاب الجمعہ، صفحہ 79،مطبوعہ  کراچی)

   جمعہ کے بعدوالی چارسنتوں سے متعلق سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا : ”اذا صلی احدکم الجمعۃ فلیصل بعدھا اربعا‘‘ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے ، تو اس کے بعد چار رکعات (سنتیں )پڑھے۔(الصحیح لمسلم ، کتاب الجمعۃ ، جلد1،صفحہ 288، مطبوعہ کراچی )

   جمعہ کے بعد دو رکعات کے بارے میں ابن ماجہ شریف میں ہے :’’عن سالم عن ابیہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی بعد الجمعۃ رکعتین ‘‘ ترجمہ :حضرت سالم اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں اَدا فرماتے تھے۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الجمعہ، صفحہ 79، مطبوعہ کراچی)

   بخاری شریف کے مشہور شارح علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کے بعد چار رکعات والی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ” وهو قول أبي حنيفة، ومحمد، وقال أبو يوسف: يصلي أربعا بتسليمة، وركعتين آخرين بتسليمة أخرى “ ترجمہ : اور یہی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (جمعہ کے بعد )ایک سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھے ، پھر ایک اور سلام کے ساتھ دو رکعتیں ( مزید ) پڑھے ۔(شرح ابی داؤد للعینی ، کتاب الصلوٰۃ ، باب الصلوٰۃ بعد الجمعۃ ، جلد 4 ، صفحہ 474 ، مطبوعہ ریاض)

   اسی وجہ سے فقہائے کرام نے جہاں بھی جمعہ کی سنت مؤکدہ کو شمار فرمایا ، تو صرف پہلے اور بعد والی چار چار رکعات کو سنتِ مؤکدہ شمار فرمایا ، چنانچہ کنز الدقائق میں سنت مؤکدہ کے بارے میں ہے :’’والسنۃ قبل الفجر و بعد الظھروالمغرب والعشاء رکعتان و قبل الظھر والجمعۃ و بعدھا اربع ‘‘ترجمہ:دورکعت فجر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اور دو عشاء کے بعداور چارظہر سے پہلے اورچار جمعہ سے پہلے اور چار رکعت جمعہ کے بعد سنت (مؤکدہ )ہیں۔ (کنز الدقائق مع بحر الرائق، جلد2،صفحہ83،مطبوعہ کوئٹہ )

علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:’’واما السنۃ قبل الجمعۃ وبعدھا فقد ذکر فی ”الاصل “و اربع قبل الجمعۃ واربع بعدھا و کذا ذکر الکرخی ‘‘ترجمہ:بہرحال جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتیں ، تو اس بارے میں”کتاب الاصل“میں ذکر کیا گیا ہے کہ چار رکعات جمعہ سے پہلے اور چار رکعات جمعہ کے بعد ( سنتِ مؤکدہ )ہیں۔ (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، فصل :صفۃ القراءۃ فی سنن الصلوٰۃ ، جلد1،صفحہ285،دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   جمعہ کے بعد چار کے علاوہ سنتوں کی نفی کرتے ہوئے علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’انا نقول السنۃ بعدھا اربع رکعات لا غیر لما روینا‘‘ ترجمہ:ہم کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد سنت صرف چار ہی رکعتیں ہیں ، ان کے علاوہ نہیں ، اس حدیث کی وجہ سے جو اس بارے میں ہم نے روایت کی ہے۔   (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، فصل :صفۃ القراءۃ فی سنن الصلوٰۃ ، جلد1،صفحہ285،دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں فرماتے ہیں :’’وسن مؤکدا۔۔اربع قبل الجمعۃ و اربع بعدھا بتسلیمۃ‘‘ترجمہ: جمعہ سے پہلے ایک سلام کے ساتھ چار رکعات اور جمعہ کے بعد ایک سلام کے ساتھ چار رکعات سنتِ مؤکدہ ہیں ۔(در مختار مع رد المختار ،کتاب الصلوۃ ، جلد 2صفحہ545،مطبوعہ کوئٹہ)

   بعد والی سنتیں بھی پڑھناروایات میں موجود ہے ، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:’’قال ابو یوسف ینبغی ان یصلی اربعاثم رکعتیں کذا روی عن علی رضی اللہ عنہ‘‘ترجمہ: امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :مناسب یہ ہے کہ نمازی جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھے ، پھر دو رکعات ( بھی ) پڑھے ، جیسا کہ طرح حضرت علی سے مروی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، فصل :صفۃ القراءۃ فی سنن الصلوٰۃ ، جلد1،صفحہ285،دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   اسی طرح بحرالرائق میں منیۃ المصلی کے حوالے سے ہے:’’وفی منیۃ المصلی والافضل عندنا ان یصلی اربعا ثم رکعتین‘‘ ترجمہ : منیۃ المصلی میں ہے :ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کے نمازی جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھے پھر دو پڑھے۔(البحرالرائق شرح کنزالدقائق،كتاب الصلوٰۃ ، باب الوتر و النوافل ، جلد2،صفحہ53، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی ، بیروت )

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا کہ جمعہ کے دن کتنی رکعات سنت پڑھنی چاہیے ؟فرضوں سے پہلی کتنی اور فرضوں کے بعد کتنی رکعات پڑھنی چاہیے؟تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:”دس سنتیں ہیں۔چار پہلے ، چار بعد ۔ھی منصوص علیھن فی المتون قاطبۃ وقد صح بھن الحدیث فی صحیح مسلم (مُتون میں ان کے حوالے سے قطعاً نص وارد ہے اور صحیح مسلم شریف میں ان کے بارے میں حدیثِ پاک بھی موجود ہے )اور دو بعد کو اور ،کہ بعدِ جمعہ چھ سنتیں ہونا ہی حدیثاً وفقہاً اَثْبَت واَحْوَط ، مختار ہے، اگرچہ چار کہ ہمارے ائمہ میں متفَق علیہ ہیں ، ان دو سے مؤکد تَر ہیں۔“(فتاوی رضویہ ، ج8،ص292،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اسی طرح ایک اور مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’جمعہ کی سنت بعدیہ میں اختلاف ہے۔ اصل مذہب میں چار ہیں ، وعلیہ المتون ( متون اسی پر ہیں )اور اَحْوَط و افضل چھ ہیں۔وھو قول الامام ابی یوسف وبہ اخذ اکثر المشائخ کما فی فتح ﷲ المعین عن النھر عن العیون والتجنیس وھو المختار کما فی جواھر الاخلاطی وھو الثابت بالحدیث کما بیناہ فی فتاوٰنا(ترجمہ :)امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے اور اسی پر اکثر مشائخ کا عمل ہے ، جیسا کہ فتح اﷲ المعین میں نہر سے اور وہاں عیون اور تجنیس سے ہے اور یہی مختار ہے ، جیسا کہ جواہر الاخلاطی میں ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے ، جیسا کہ ہمارے فتاویٰ میں اس کی تفصیل ہے۔‘‘  (فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ326،رضا فائونڈیشن ،لاھور)

   فتاویٰ نوریہ میں ہے : ” بعد از جمعہ ہمارے امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک چار رکعتیں سنت ہیں ، جو ایک سلام کے ساتھ یعنی چار اکٹھی پڑھی جائیں اور امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ سے چھ رکعتیں آئی ہیں ، لہٰذا چھ پڑھنی اچھی ہیں کہ چھ میں چار بھی آجائیں گی ، مگر یوں پڑھے کہ چار پہلے ایک سلام کے ساتھ پڑھ لے اور بعد اَزاں دو پڑھے۔“( فتاویٰ نوریہ ، جلد 1 ، صفحہ 558 ، دار العلوم حنفیہ فریدیہ ، اوکاڑہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم