مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2869
تاریخ اجراء: 05محرم الحرام1446 ھ/12جولائی2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
جمعہ کی دوپہر میں جب امام خطبہ دے
رہا ہو توکیا امام کی طرف دیکھنا چاہیے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی طور پر خطبہ جمعہ کے دوران خاموش
رہنااور اسے غور سے سننا واجب ہے اوراس دوران ،کھانا ،پینا،بات چیت
کرناوغیرہ ہر وہ کام جو خطبہ سننے میں مُخِل(خلل ڈالنے ولا) ہو، وہ حرام ہےاگرچہ
فی نفسہ وہ نیکی کا کام ہو،یہاں تک کہ گردن پھیر کر اِدھر اُدھر دیکھنے
کو بھی فقہائے کرام نے سننے میں مخل (خلل ڈالنے ولا) شمار
کیااور ناجائز بتایا ہے۔
خطبہ جمعہ کے دوران خطیب کی طرف دیکھنا ضروری
نہیں ہے بلکہ اس کی طرف رخ
کرکے بیٹھنا سنت ہےکہ اس کی
طرف رخ کر کے بیٹھنے میں وعظ ونصیحت کا فائدہ حاصل کرنا مقصود
ہوتا ہے، لہذا خطبہ جمعہ کے دوران خطیب کی طرف رخ کر کے، بالکل خاموشی کے ساتھ ادھر ادھر
دیکھے بغیر خطیب کی طرف متوجہ رہیں اور کوشش
کریں کہ نگاہیں نیچی کیے خطبہ سنیں، البتہ اگر اس دوران چہرہ
پھیرے بغیر خطیب کی طرف دیکھ لیا تو کوئی گناہ نہیں ہےجبکہ اس کی وجہ سے توجہ میں خلل
نہ آئے۔
در مختار میں ہے”فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف بل يجب عليه أن
يستمع ويسكت ‘‘ ترجمہ :پس خطبہ کے دوران کھانا پینا اور کلام کرنا اگرچہ تسبیح
ہو اور سلام کاجواب دینا اور نیکی کی دعوت دینا
حرام ہے، خطبہ سننے والے پر واجب ہے کہ وہ غور سے سنے اور خاموش رہے ۔(در مختار مع رد
المحتار،ج 2،ص 159،دار الفکر،بیروت)
حاشیۃ
الطحطاوی علی المراقی میں ہے ’’یکرہ
لمستمع الخطبۃ ما یکرہ فی الصلاۃ من أکل وشرب وعبث
والتفات ونحو ذلک‘‘خطبہ سننے والے کے لیے ہر وہ بات مکروہ ہے جو نماز میں مکروہ ہے مثلاً
کھانا پینا، عبث فعل اور کسی طرف متوجہ ہونا وغیرہ ۔(حاشیۃ
الطحطاوی علی المراقی،باب الجمعۃ،ص 519،دار الکتب
العلمیۃ،بیروت)
اعلی حضرت امام
احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے
ہیں :’’چلنا تو بڑی چیز ہے انھیں عبارات علماء میں
تصریح گزری کہ خطبہ ہوتے میں ایک گھونٹ پانی پینا
حرام ، کسی طرف گردن پھیر کر دیکھنا حرام، تو وہ حرکت مذکورہ کس
درجہ سخت حرام ہوگی۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج 8،ص 334،رضا
فاؤنڈیشن، لاہور)
مبسوط سرخسی
میں ہے " وينبغي
للرجل أن يستقبل الخطيب بوجهه إذا أخذ في الخطبة وهكذا نقل عن أبي حنيفة - رضي
الله عنه - أنه كان يفعله لأن الخطيب يعظهم ولهذا استقبلهم بوجهه وترك استقبال
القبلة فينبغي لهم أن يستقبلوه بوجوههم ليظهر فائدة الوعظ وتعظيم الذكر "ترجمہ : مرد کےلئے
مستحب ہے کہ جب خطیب خطبہ
دینے لگے تو اس کی طرف چہرہ
کر ے ،اور امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سے بھی ایسے ہی کرنا نقل کیا گیا ہے ،اس لئے کہ
خطیب لوگوں کو وعظ و نصیحت
کرتاہے اسی وجہ سے وہ لوگوں کی طرف چہرہ کرتاہے اور قبلہ
کی طرف رخ کرنا چھوڑ دیتا ہے
لہذا لوگوں کو بھی
چاہئے کہ وہ اس کی طرف رخ کر کے
بیٹھیں تاکہ وعظ و نصیحت کا فائدہ اور ذکر کی تعظیم ظاہر ہو ۔(مبسوط
سرخسی ، ج2،ص30، دار المعرفة، بيروت)
فتاوى ہندیہ
میں ہے :"ويستحب للرجل أن يستقبل الخطيب بوجهه، هذا إذا كان أمام الإمام، فإن كان عن
يمين الإمام أو عن يساره قريبًا من الإمام ينحرف إلى الإمام مستعدًا للسماع، كذا
في الخلاصة" ترجمہ: مرد کےلئے
خطیب کی طرف رخ کرنا مستحب
ہوتاہے جب وہ امام کے سامنے ہو اور اگر وہ
امام کی دائیں جانب یا بائیں جانب اس کے قریب بیٹھا ہو تو پھر امام کی طرف مڑجائے توجہ سے خطبہ
سننے کےلئے ایسے ہی خلاصہ
میں ہے ۔(فتاوی ھندیۃ ،ج1،ص147،دار الفکر
،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟