Jumma Ke Din Zawal Se Pehle Jumma Ada Kiye Baghair Safar Ke Liye Nikalna Gunah Hai

جمعہ والے دن زوال کے بعد جمعہ ادا کیے بغیر سفر کے لیے نکلنا گناہ ہے

مجیب:محمد سجادعطاری مدنی

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Book-154

تاریخ اجراء:24رجب المرجب1431ھ/07جولائی2010ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حید ر آباد زید کا وطن اصلی ہے، لیکن کراچی میں وہ گورنمنٹ ملازم ہے ،نوکری کے سلسلے میں وہ تین چار دن کراچی اور تین چار دن حیدر آباد رہتا ہے ، پوچھنا یہ ہے کہ ایسے شخص پر جمعہ فرض ہے یا نہیں؟ نیز بقیہ فرائض کو وہ حید ر آباد یا کراچی میں قصر کیساتھ ادا کرے گا یا پھر دونوں جگہوں پر پوری نمازیں ادا کرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حیدر آباد چونکہ زید کا وطن اصلی ہے ،لہٰذا حیدر آباد میں زید پر جمعہ فرض اور جمعہ والے دن زوال کے بعد جمعہ ادا کیے بغیر سفر کے لیے نکلنا باعث گناہ ہے ،ہاں البتہ زوال سے پہلے سفر شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں اور دیگر فرائض کو مکمل ادا کرنا لازم ہے ،چاہے حیدر آباد میں زیدکا قیام ایک دن کے لیے ہو یا ایک گھنٹہ کے لیے، البتہ آتے جاتے وقت راستہ میں اور کراچی میں پندرہ دن سے کم کی نیت سے جب بھی قیام کا ارادہ ہوگا ،زید شرعی اعتبار سے مسافر قرار پائے گا ،مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہوتا اور مسافرپر نمازوں میں قصر کرنا (یعنی چار رکعت والی نمازوں کو دو ،دو رکعت کی صورت میں ادا کرنا ) لازم ہے اور پوری پڑھنے کی صورت میں گنہگار قرار پائے گا اور دو پر قعدہ نہیں کیا ،تو فرض ہی ادا نہ ہوں گے۔

    چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’و فرض المسافر فی الرباعیۃ رکعتان لا یزید علیھما ،ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوی الاقامۃ فی بلدۃ او قریۃ خمسۃ عشر یوما او اکثر وان نوی الاقل من ذلک قصر‘‘ یعنی چار رکعت والی نمازوں میں مسافر پر دورکعتیں فرض ہیں ان دو سے زیادہ نہیں کرے گااور مسافر حکم سفر میں رہے گا جب تک کہ کسی شہر یا گاؤں میں پندرہ دن یا اس سے زائد کے رہنے کی نیت نہ کرلے اگر اس سے کم کی نیت کرے گا،تو قصر کرتا رہے گا ۔(ہدایہ  مع بنایہ، جلد3، صفحہ 246، مطبوعہ ملتان)

   اسی کے آگے ہے:’’واذا دخل المسافر فی مصرہ اتم الصلاۃ وان لم ینو المقام فیہ‘‘ یعنی جب مسافر اپنے شہر میں داخل ہو گا پوری نماز ادا کرے گا، اگرچہ وہ اس میں رہنے کی نیت نہ کرے۔(ہدایہ  مع بنایہ، جلد3 ،صفحہ 269 ،مطبوعہ ملتان)

   ہدایہ میں ہے:’’ولا تجب الجمعۃ علی مسافر ولا امراۃ ولا مریض ولا عبد ولا اعمی‘‘یعنی مسافر، عورت، غلام ،اندھےو مریض پر جمعہ واجب نہیں۔(ہدایہ  مع بنایہ، جلد3، صفحہ319، مطبوعہ ملتان)

   یاد رہے کہ جمعہ واجب نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر مسافر نے جمعہ کی نماز میں شرکت نہ کی تو گنہگار نہ ہوا، بلکہ اس کے بدلے میں ظہر ادا کرے گا اگر آسانی سے میسر ہو ،تو ہرگز جمعہ کی سعادت کو نہ چھوڑا جائے اور جمعہ ادا کرلینے کی صورت میں ظہر کی ادائیگی اس سے ساقط ہو جائے گی۔

   علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جمعہ کے فرض ہونے کی شرائط لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:’’ان اختار العزیمۃ وصلاھا وھو مکلف بالغ عاقل وقعت فرضا عن الوقت‘‘ اگر اس نے عزیمت کو اختیار کیا اور جمعہ پڑھ لیا درآنحالیکہ وہ مکلف ہو یعنی عاقل بالغ ہو،تو وقت سے فرض ہی ادا ہوگا۔

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’ ای صلاۃ الجمعۃ لانہ رخص لہ فی ترکھا الی الظھر فصارت الظھر فی حقہ رخصۃ والجمعۃ عزیمۃ‘‘یعنی عزیمت سے مراد یہ ہے کہ اس نے جمعہ پڑھ لیا، کیونکہ ظہر کی ادائیگی پر اس کے لئے جمعہ چھوڑنے کی رخصت تھی،تو ظہر اس کے حق میں رخصت ہےاور جمعہ عزیمت۔ (درمختارمع رد المحتار، جلد 03، صفحہ33، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مقیم کے لیے جمعہ ادا کرنے سے قبل سفر کے لیے نکلنے کا حکم شرعی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگروہ ٹھیک دوپہر ہونے سے پہلے شہر کی آبادی سے نکل جاتا ہے،تواس پر اصلاً کچھ الزام نہیں اور اگر اسے شہر ہی میں وقت جمعہ ہوجاتا ہے اس کے بعد بے پڑھے چلاجاتا ہے، تو ضرور گنہگار ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد 8،صفحہ 459، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم