Jumma Ka Khutba Mimber Par Na Parhna Kaisa?

جمعہ کا خطبہ منبر پر  نہ پڑھنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2198

تاریخ اجراء: 27 جُمادَی الاُخریٰ 1443  ھ/31 جنوری 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جمعہ کا عربی خطبہ منبر پر پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ہماری مسجد میں کافی سالوں سے امام صاحب جمعہ کا خطبہ منبر پر ہی دیتے رہے ہیں ، لیکن اب ایک شخص کہتا ہے کہ منبر پر خطبہ دینے کا کہیں سے بھی ثبوت نہیں ہے ، اس لیے منبر ہٹا دیا جائے اور کرسی پر بیٹھ کر امام صاحب بیان کر لیں اور زمین پر ہی کھڑے ہوکر خطبہ دے دیا کریں اور پھر اس شخص نے منبر اُٹھوا کر اس کی جگہ کرسی رکھ دی ہے ، امام صاحب کرسی پر بیٹھ کر بیان کرتے ہیں اور نیچے زمین پر ہی کھڑے ہوکر جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں ۔ آپ سے یہ شرعی رہنمائی درکار ہے کہ جمعہ کا خطبہ منبر پر دینے کا ثبوت ہے ؟ نیچے زمین پر کھڑے ہوکر خطبہ دے سکتے ہیں ؟ شرعاً اس میں کوئی حرج تو نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   منبر کا ثبوت خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ، بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر شریف کے فضائل بہت ساری صحیح اور مشہور حدیثوں میں مذکور ہیں ، جن کو امام بخاری سمیت بہت سارے محدثین کرام رحمہم اللہ نے باقاعدہ اسی عنوان سے ابواب قائم کر کے ذکر کیا ہے ۔ نیز بہت سارے شرعی احکام ایسے ہیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمائے ہیں ، جن کو بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام اور دیگر راویوں نے ساتھ یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے بیان کیا ہے ۔اسی طرح صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لے کر موجودہ دور تک یہ سنت مسلسل رائج ہے ، الغرض یہ سنتِ متوارثہ ہے اور سنتِ متوارثہ کی اتباع بہت ضروری ہے ، اس کی بہت تاکید ہے ، بلاعذر اس کو ترک کرنا انتہائی قبیح ، مکروہ عمل اور فتنے کا باعث ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اس شخص کو چاہیے کہ اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کرے ، احادیث اور سیرت کا مطالعہ کرے ، مستند سنی علمائے کرام کے بیان سنے ، خواہ مخواہ فتنے کا دروازہ نہ کھولے ، اپنی اس حرکت سے باز رہے اور منبر پر خطبہ دینے سے رکاوٹ نہ بنے اور نیچے کھڑے ہوکر خطبہ نہ دیا جائے ، منبر پر ہی دیا جائے ۔

   نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے منبر شریف بنایا گیا ، چنانچہ اس کا واقعہ امام بخاری یوں بیان کرتے ہیں : ’’ أن امرأة من الأنصار قالت لرسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: يا رسول اللہ ألا أجعل لك شيئا تقعد عليه، فإن لي غلاما نجارا قال: إن شئت، قال: فعملت له المنبر، فلما كان يوم الجمعة قعد النبي صلى اللہ عليه وسلم على المنبر الذي صنع، فصاحت النخلة التي كان يخطب عندها، حتى كادت تنشق، فنزل النبي صلى اللہ عليه وسلم حتى أخذها، فضمها إليه، فجعلت تئن أنين الصبي الذي يسكت، حتى استقرت، قال: بكت على ما كانت تسمع من الذكر ‘‘ ترجمہ : ایک انصاری خاتون نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنوا دوں ، جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں ، کیونکہ میرا ایک غلام بڑھئی (Carpenter) ہے ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر تو چاہتی ہے ( تو بنوا لے ، راوی ) کہتے ہیں کہ اس خاتون نے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے منبر شریف تیار کروایا ، تو جب جمعہ کا دن آیا ، تو جو منبر تیار کیا گیا تھا ، نبی پاک علیہ الصلوٰۃ وا لسلام اس پر تشریف فرما ہوئے ، تو جس کھجور کے تنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ، وہ رونا شروع ہوگیا ، یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ ( غم کی وجہ سے ) پھٹ جاتا ، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم ( منبر شریف سے ) نیچے تشریف لائے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا ، تو جس طرح کسی بچے کو چُپ کروایا جائے ، تو وہ سسکیاں بھرتا ہے ، اس طرح وہ کھجور کا تنا سسکیاں بھرنے لگا ، یہاں تک کہ اس کو قرار مل گیا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب البیوع ، باب النجار ، جلد 1 ، صفحہ 281  ، مطبوعہ کراچی )

   سرکار علیہ الصلوٰۃ وا لسلام کے منبر شریف کی فضیلت سے متعلق امام بخاری عنوان قائم کرنے کے بعد حدیثِ پاک ذکر کرتے ہیں: ’’ ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة ‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میرے کاشانۂ اقدس ( گھر ) اور میرے منبر ( شریف ) کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔ ( صحیح البخاری ، کتاب فضل الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ و المدینہ ، جلد 1 ، صفحہ 159 ، مطبوعہ کراچی)

   اسی طرح امام بخاری بطورِ خاص منبر پر خطبہ دینے کے عنوان سے باب قائم کر نے کے بعد حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں : ’’ قال أنس رضي اللہ عنه :خطب النبي صلى اللہ عليه وسلم على المنبر ‘‘ ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر شریف پر خطبہ ارشاد فرمایا ۔(صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب الخطبۃ علی المنبر ، جلد 1 ، صفحہ125  ، مطبوعہ کراچی)

   حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں : ’’ كان النبي صلى اللہ عليه وسلم يخطب خطبتين : كان يجلس إذا صعد المنبر حتى يفرغ ، أراه قال : " المؤذن " ثم يقوم فيخطب ، ثم يجلس فلا يتكلم ، ثم يقوم فيخطب ‘‘ ترجمہ : نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے ۔ جب منبر پر چڑھتے ، تو ( پہلے ) بیٹھتے ، موذن ( اذان ) کہتا ، پھر سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کھڑے ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے ، پھر بیٹھتے ، تو کوئی کلام نہ فرماتے ، پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے ۔( سنن ابی داؤد ، کتاب الجمعۃ ، باب الجلوس اذا صعد المنبر ، جلد 1 ، صفحہ 355 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   جمعہ کے دن پہلی اذان سے متعلق بخاری شریف میں ہے : ’’ كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى اللہ عليه وسلم، وأبي بكر، وعمر رضي اللہ عنهما ‘‘ ترجمہ : نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مبارک زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اُس وقت ہوتی تھی ، جب امام منبر پر آجاتا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب الاذان یوم الجمعۃ ، جلد 1 ، صفحہ 124  ، مطبوعہ کراچی )

   صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی منبر پر ہی وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’ سمعت عمر رضي اللہ عنه على منبر النبي صلى اللہ عليه وسلم يقول: ‘‘ ترجمہ : میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نبی پا ک صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر شریف پر خطبہ دیتے ہوئے سنا ۔( صحیح البخاری ، کتاب تفسیر القرآن ، جلد 2 ، صفحہ 664 ، مطبوعہ کراچی )

   حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے متعلق حضرت موسیٰ بن طلحہ روایت کرتے ہیں : ’’ شهدت عثمان يخطب على المنبر قائما ‘‘ ترجمہ : میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ کے پاس حاضر تھا کہ آپ منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔( المعجم الکبیر للطبرانی ، جلد 19 ، صفحہ 324 ، مطبوعہ مکتبۃ العلوم و الحکم ، الموصل )

   حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے بارے میں حضرت ابراہیم تیمی اپنے والدِ گرامی سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ’’ خطبنا علی رضی اللہ عنه على منبر ‘‘ ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے ہمیں منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا ۔( صحیح البخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ ، جلد 2 ، صفحہ 1084 ، مطبوعہ کراچی )

   منبر پرخطبہ دینے کو سنت قرار دیتے ہوئے علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ بحر الرائق میں فرماتے ہیں : ’’ ومن السنة أن يكون الخطيب على منبر اقتداء برسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ‘‘ ترجمہ : (جمعہ کے خطبے کے لیے ) سنت یہ ہے کہ خطیب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرتے ہوئے منبر پر ہو ۔ ( البحر الرائق ، کتاب الصلوٰۃ ، باب صلوٰۃ الجمعۃ ، جلد 2 ، صفحہ 259 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   متوارث عمل کی اتباع کے حوالے سے علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں فرماتے ہیں : ’’ ان المسلمين توارثوه فوجب اتباعهم ‘‘ ترجمہ : جو چیز مسلمانوں میں توارث سے چلتی آرہی ہو ، اس کی اتباع لازم ہے ۔( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الصلوٰۃ ، باب العیدین ، جلد 3 ، صفحہ 75، مطبوعہ کوئٹہ )

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن منبر کے ثبوت کے حوالے سے فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ’’ منبر خود رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بنوایا اور اس پر خطبہ فرمایا ۔ کما ثبت فی الصحیحین وغیر ھما حدیث سھل بن سعد رضی ﷲ تعالی عنہ ( جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت سہل بن سعد رضی تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ) منبر اقدس کے تین زینے تھے علاوہ اوپر کے تختے کے جس پر بیٹھتے ہیں وقد وقع ذکر ھن فی غیرما حدیث ( ان کا ذکر متعد د احادیث میں ہے ۔ ) حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم درجہ بالا پر خطبہ فرمایا کرتے ، صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوسرے پر پڑھا، فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تیسرے پر ، جب زمانہ ذوالنورین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا آیا ، پھر اول پر خطبہ فرمایا ۔سبب پوچھا گیا، فرمایا : اگر دوسرے پر پڑھتا لوگ گمان کرتے کہ میں صدیق کا ہمسر ہوں اور تیسرے پر تو وہم ہو تا کہ فاروق کے برابر ہوں ۔ لہذا وہاں پڑھا جہاں یہ احتمال متصور ہی نہیں ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 8 ، صفحہ 343 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سنتِ متوارثہ کی خلاف ورزی سے متعلق فرماتے ہیں : ’’ خطبہ خاص زبان عربی میں ہونا متوارث ہے ، عہد سلف میں بحمد اﷲ ہزارو ں بلاد عجم فتح ہوئے ۔ ہزارہا منبر نصب کئے گئے ، عامہ حاضرین اہل عجم ہوتے مگر کبھی منقول نہیں کہ سلف صالح نے ان کی تفہیم کے لئے خطبہ جمعہ یا عیدین غیر عربی میں پڑھا یا اس میں دوسری زبان کا خلط کیا ، اور سنت متوارثہ کی مخالفت بیشک مکروہ ہے ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 8، صفحہ 308 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں جمعہ کے خطبہ کی سنتوں سے متعلق فرماتے ہیں : ’’ خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں: ۔۔۔ (۳) خطبہ سے پہلے خطیب کا بیٹھنا۔ (۴) خطیب کا منبر پر ہونا۔ الخ ‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 4 ، جلد 1 ، صفحہ 767 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم