Jo Mareez Bistar Par Ho Aur Harkat Na Kar Sake Uske Liye Namaz Ka Hukum

جو مریض بستر پر ہو اور حرکت نہ کرسکے اس کے لئے نماز کا حکم

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-2882

تاریخ اجراء: 11محرم الحرام1446 ھ/18جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی بالکل بستر پر ہو ، حرکت نہ کر سکے، تو اس کے لئے  نماز کا کیا حکم ہو گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جومریض بسترپرہواورحرکت نہ کرسکے تواس کے متعلق درج ذیل تفصیل ہے :

   (1)اگروہ صرف سرسے اشارہ کرسکتاہے توایسی صورت میں اس پرسرکے اشار ے سے نمازاداکرنالازم ہے۔ جس کاطریقہ یہ ہے کہ :

   ایسے مریض کو پیٹھ کے بل اس طرح لٹا یا جائے کہ اس کے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیں تاکہ اس کا چہرہ قبلہ رو ہو جائے اور اس کی ٹانگیں قبلے کی طرف کر دیں مگر مریض کے لیے ممکن ہو تو اپنے پاؤں سمیٹ لے کہ قبلے کی طرف پاؤں کرنا مکروہ ہے اور اب سر کے اشارے کے ذریعے رکوع اور سجدہ کر کے نماز ادا کرے ۔اور اگر سیدھی یا الٹی کروٹ لیٹ کر قبلے کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتا ہے تو بھی جائز ہے مگر پیٹھ کے بل لیٹ کر نماز پڑھنے کی قدرت ہو تو اسی طرح لیٹ کرنماز پڑھنا افضل ہے ۔

   (2)اوراگر سر سے  بھی اشارہ  نہ کرسکے تو نماز ساقط ہے، اس کی ضرورت نہیں کہ آنکھ یا بھنووں یا دل کے اشارہ سے پڑھے ۔

   پھر اگر چھ وقت اسی حالت میں گزر گئے تو ان کی قضا بھی ساقط، فدیہ کی بھی حاجت نہیں ،ورنہ بعد صحت ان نمازوں کی قضا لازم ہے اگرچہ اتنی ہی صحت ہو کہ سر کے اشارہ سے پڑھ سکے۔

   در مختار میں ہے” (وإن تعذر القعود) ولو حكما (أومأ مستلقيا) على ظهره (ورجلاه نحو القبلة) غير أنه ينصب ركبتيه لكراهة مد الرجل إلى القبلة ويرفع رأسه يسيرا ليصير وجهه إليها (أو على جنبه الأيمن) أو الأيسر ووجهه إليها (والأول أفضل) على المعتمد (وإن تعذر الإيماء) برأسه (وكثرت الفوائت) بأن زادت على يوم وليلة (سقط القضاء عنه۔۔۔وعليه الفتوى)“ترجمہ:اگر مریض کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا بھی متعذر ہو جائے اگرچہ حکمی طور پر تو وہ پیٹھ کے بل لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھے اور ٹانگیں قبلہ کی جانب کرے لیکن گھٹنوں کو کھڑا رکھے کیونکہ قبلہ کی جانب پاؤں پھیلانا مکروہ ہے اور اپنا سر تھوڑا سا بلند رکھے تاکہ اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہو جائے ،یا دائیں و بائیں کروٹ پر لیٹ کر قبلہ کی جانب منہ کرے لیکن معتمد قول کے مطابق  پہلا طریقہ افضل ہے ،اور اگر مریض کے لئے سر سے اشارہ کرنا بھی متعذر ہو جائے اور فوت شدہ نمازیں ایک دن ایک رات سے زیادہ ہو جائیں تو ان کی قضا ساقط ہو جائے گی ،اسی پر فتوی ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے” (قوله بأن زادت على يوم وليلة) أما لو كانت يوما وليلة أو أقل وهو يعقل، فلا تسقط بل تقضى اتفاقا وهذا إذا صح، فلو مات ولم يقدر على الصلاة لم يلزمه القضاء حتى لا يلزمه الإيصاء بها۔۔۔ قال في البحر: وينبغي أن يقال محمله ما إذا لم يقدر في مرضه على الإيماء بالرأس، أما إن قدر عليه بعد عجزه فإنه يلزمه القضاء “ترجمہ:(مصنف کا قول : فوت شدہ نمازیں ایک دن ایک رات سے زیادہ ہو جائیں)اور اگر ایک دن ایک رات کی نمازیں ہوں یا اس سے کم اور مریض عقل رکھتا ہو تو وہ نمازیں ساقط نہیں ہوں گی بلکہ بالاتفاق ان کی قضا کرے گا اور یہ (قضا کا لازم ہونا)اس صورت میں ہے، جب وہ صحت یاب ہو جائے ،اور اگر اسے  اسی حال میں موت آجائے   اور وہ نمازوں کی ادائیگی پر قادر نہ ہو اتو اس پر قضا لازم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ان نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرنا اس پر لازم نہیں ہوگا۔بحرمیں فرمایا:اوریہ کہناچاہیے کہ اس  سے مرادوہ صورت ہے کہ جب وہ سرسے اشارہ کرنے پربھی قادرنہ ہوبہرحال اگرسرکے اشارے سے عاجزآنے کے بعدوہ سرکے اشارے پرقادرہوجائے تواس پرقضالازم ہوگی ۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ،ج 2،ص 686،687،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم