Jis Par Peshab Ke Baad Istibra Lazim Ho Us Ka Imam Banna

 

جس شخص پر پیشاب کے بعد استبراء لازم ہو، اس کا امام بننا

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3165

تاریخ اجراء: 06ربیع الثانی 1446ھ/10اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی  شخص پر پیشاب کرنے کے بعد استبرا ء لازم ہو  اور اس کے قطرے چلنے سے یا لیٹنے سے، بیٹھنے سے یا قطرے زائل کرنے کے جو بھی طریقے ہیں،ان میں  سے  کسی بھی طریقے قطرے بالکل زائل ہو جائیں اور اب اس کو یقین ہوجائے کہ کوئی قطرہ نہیں آئے گا تو  کیا وہ امامت کروا سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں!اگراس شخص میں دیگرشرائط امامت پائی جائیں اور وہ فاسق معلن بھی نہ ہو توایسا شخص امامت کروا سکتا ہے؛کیونکہ یہ شخص معذور شرعی نہیں ہے ، اس کی وجہ  یہ ہےکہ   شرعی معذور ہونا اس وقت  ثابت ہوتا ہے کہ  جب کسی شخص کو وضوتوڑ دینے والاکوئی معاملہ اس طرح لاحق ہوجائے کہ ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گزر جائے کہ اسے وضو کرکے فرض نماز کی ادائیگی کا موقع ہی نہ مل سکے۔ جبکہ  پوچھی گئی صورت میں  استبراء کے بعد اس شخص کو قطرے آنا  ختم ہو جاتے ہیں ،لہذا یہ معذور شرعی نہیں۔اورجومعذورشرعی نہ ہو،وہ عام لوگوں کی امامت کرسکتاہے جبکہ  شرائط امامت اس میں پائی جاتی ہوں اوروہ فاسق معلن بھی نہ ہو۔

   فتاوی ہندیہ  میں ہے :”شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله“یعنی پہلی مرتبہ عذر ثابت ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک نماز کے  پورے وقت میں  وہ عذر باقی رہے اور یہی بات زیادہ ظاہر ہے، جیسا کہ عذر کا منقطع ہونا بھی اسی  وقت ثابت ہوتا ہے جب نماز کے ایک پورے وقت میں وہ عذر منقطع رہے۔ (فتاوی ھندیۃ،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 40،دار الفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:”ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے۔ “ (بہار شریعت  ، ج01،حصہ 2، ص385، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   قطرے آنا بند ہوجائیں تو شرعی معذور نہیں، ایسا شخص ہر حدث کے بعد وضو کرکےہر  ایک کی امامت کرواسکتا ہے۔ جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”الحمدللّٰہ وحدہ ،اذاکان احتشاؤہ یردمابہ کماوصف فی السؤال فقدخرج عن حد العذر والتحق بالاصحاء یتوضأ لکل حدث ویغسل کل نجس ویؤم کل نفس ولایعذر فی ترک الاحتشاء بل ھو فریضۃ علیہ کفریضۃ الصلاۃ “ ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو یکتا ہے۔ اگر رُوئی رکھنے سے اس کے قطرے ٹپکنے بند ہوجاتے ہیں جیسا کہ سوال میں بیان کیا تو وہ عذر کی حد سے نکل گیا اور صحیح افراد کے ساتھ شامل ہوگیا۔ ہر حدث (اصغر) کے بعد وضو کرےگا اور جہاں نجاست لگی ہو اسے دھوئے گا اور ہر ایک کی امامت کراسکتا ہے ،اس سے رُوئی نہ رکھنے کا عذر قبول نہ ہوگا بلکہ نماز کی طرح روئی رکھنا بھی اس پر ضروری  ہے۔“ (فتاوی رضویہ،ج04،ص368،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم