Jis Musalle Par Simt e Qibla Dikhane Wala Compass Laga Ho Us Par Namaz Parhna

جس مصلے پر سمتِ قبلہ دکھانے والا کمپاس نصب ہو، اس پر نماز پڑھنا

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13297

تاریخ اجراء: 26 شعبان المعظم 1445 ھ/08 مارچ 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے چچا عمرہ سے واپس آتے ہوئے  ایک جائے نماز لے کر آئے جو انہوں نے مجھے تحفے میں دی ہے ۔ اس جائے نماز کے درمیان میں قبلہ کی سمت دکھانے والا کمپاس نصب ہے ،نماز ادا کرتے ہوئے اس پر نظر بھی پڑتی ہے ، کیا اس جائے نماز پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ پاک نے قرآن مجید میں کامیاب مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ نماز پڑھتے ہوئے اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر ہر مسلمان کو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنا چاہئے ۔  ظاہری اعضا میں خشوع کا معنی یہ ہے کہ نمازی کے تمام اعضاسکون میں ہوں اور نظر قیام کی حالت میں مقامِ سجدہ پر، حالتِ رکوع میں پشتِ قدم پر، حالت سجود میں ناک کی طرف اور حالتِ قعدہ میں اپنی گود کی طرف ہو ۔ اب اگر ایسے مصلے پر نماز پڑھی جائے گی جس پر قبلہ کی سمت دکھانے والاکمپاس نصب ہے، تو اس صورت میں خاشعین کی طرح نماز پڑھتے ہوئے  قیام، رکوع اور قعود کی حالت میں بار بار نظر اس کمپاس  کی طرف اٹھے گی ،توجہ اسی طرف مبذول ہوتی رہے گی،جس کی وجہ سے خشوع و خضوع میں خلل واقع ہوگا، لہٰذا ایسے مصلے پر نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہوگایعنی ایسے مصلے پر نماز پڑھنااگرچہ گناہ نہیں ہے، لیکن اس پر نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے۔

   اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:”قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ(2) “ترجمۂ کنز الایمان:بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(سورۂ مومنون، آیت 1۔2)

   تفسیر ابی سعود، تفسیر بیضاوی اورتفسیر روح البیان میں ہے :”خائفون من الله متذللون له ملزمون ابصارهم مساجدهم “یعنی اللہ پاک سے ڈرتے ہیں، اس کے لئے عاجزی اختیار کرتے ہیں ،اپنی نگاہوں کو اپنے سجدوں کی جگہ جما کر رکھتے ہیں۔(تفسیر روح البیان، جلد 6، صفحہ 66، دارالفکر)

   تفسیرِ کبیر وتفسیر خازن میں ہے:واللفظ للخازن:”لا بد من الجمع بين أفعال القلب والجوارح وهو الأولى فالخاشع في صلاته لا بد وأن يحصل له الخشوع في جميع الجوارح , فأما ما يتعلق بالقلب من الأفعال فنهاية الخضوع والتذلل للمعبود ولا يلتفت الخاطر إلى شيء سوى ذلك التعظيم . وأما ما يتعلق بالجوارح فهو أن يكون ساكناً مطرقاً ناظراً إلى موضع سجوده“یعنی خشوع میں افعالِ قلب و افعالِ اعضا کو جمع کرنا ضروری ہے اور یہی زیادہ بہتر ہے ، لہٰذا خاشع کے لئے ضروری ہے کہ اسے تمام اعضا میں خشوع حاصل ہو، بہر حال جن افعال کا تعلق دل کے ساتھ ہے، تو ان میں معبود کے لئے خضوع و عاجزی کی انتہا ہو اور اس کی  تعظیم کے علاوہ دل کسی دوسری چیز کی التفات نہ کرے  اور جن افعال کا تعلق اعضا کے ساتھ ہے ، تووہ سکون کے ساتھ ، سر جھکائے ہوئے اپنے سجدہ کی جگہ پر نظر  رکھے ہوئے ہو۔ (تفسیر خازن، جلد 3،صفحہ 267،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

   مبسوط میں ہے:”لما نزل قوله تعالى: { قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ(2)}قال أبو طلحة رضي الله عنه ما الخشوع يا رسول الله قال: "أن يكون منتهى بصر المصلي حال القيام موضع سجوده". ثم فسر الطحاوي في كتابه فقال في حالة القيام ينبغي أن يكون منتهي بصره موضع سجوده وفي الركوع على ظهر قدميه وفي السجود على أرنبة أنفه وفي القعود على حجره “یعنی جب اللہ پاک کا یہ فرمان ” قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ(2) “ نازل ہوا، تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خشوع کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز پڑھنے والے کی نگاہ حالتِ قیام میں اس کے سجدہ کی جگہ ہو۔ پھر امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:مناسب یہ ہے کہ حالتِ قیام میں نگاہ کی انتہا موضعِ سجدہ ہو، رکوع میں پشتِ قدم پر ہو، سجود میں ناک کے اگلے حصہ کی طرف اور قعدہ میں گود کی طرف۔(المبسوط،جلد 1،صفحہ 25، دارالمعرفۃ، بیروت)

   امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام نقل کرنے کے بعد علامہ علاء الدین کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”أن هذا كله تعظيم وخشوع“یعنی یہ تمام کا تمام تعظیم و خشوع ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ 215، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں اورعلامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی رحمۃ اللہ علیہ مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں فرماتے ہیں:”(و) تكره بحضرة كل (ما يشغل البال) كزينة (و) بحضرة ما (يخل بالخشوع) “یعنی ہر وہ چیز جو دل کو مشغول کرے جیسے زینت اور جوچیز خشوع میں خلل ڈالے ،اس کی موجودگی میں نماز مکروہ ہوگی۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ131، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)

   وقار الفتاوی میں ہے:”نقش و نگار والی جا نمازوں پر نماز پڑھنا اچھا نہیں کہ توجہ ان کی طرف ر ہے گی ، اور خشو ع و خضو ع میں فرق آئے گا“ (وقار الفتاوی ،جلد2،صفحہ 514،بزمِ وقار الدین ،کراچی)

   وقار الفتاوی میں ہے:” نمازیوں کے آگے اتنی اونچائی تک کہ خاشعین کی طرح نماز پڑھنے میں جہاں تک نظر آجاتا ہے شیشے لگانا یاکوئی ایسی چیز لگانا جس سے نمازی کا دھیان اور التفات ادھر جاتاہو، مکروہ ہے۔ لہٰذا اتنی اونچائی تک کے شیشے ہٹالینا چاہییں، ان شیشوں میں اپنی شکل جو نظر آتی ہے اس کے احکام تصویر کے نہیں، لہٰذا نماز مکروہِ تحریمی نہ ہوگی مگر مکروہِ تنزیہی ہے۔“(وقار الفتاوی ،جلد2،صفحہ258، بزم وقارالدین،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم