Jin Namazon Mein Qiyam Zaroori Hai Kya Unki Qaza Mein Bhi Qiyam Zaroori Hai ?

 

جن نمازوں میں قیام ضروری ہے کیا ان کی قضا میں بھی قیام ضروری ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-039

تاریخ اجراء: 20محرم الحرام1445ھ/08 اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ فرض ،وتر اور سنتِ فجر میں قیام فرض  ہے۔تو کیا اگر یہ نمازیں قضا ہوجائیں ،تو بھی ان میں قیام فرض ہی رہے گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فرض و واجب نمازیں اگر قضا ہوجائیں، تو بھی ان میں قیام فرض ہی رہے گا،کہ قضا ہوجانے سے قیام کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی،ہاں اگر قضا  پڑھتے وقت   کسی شرعی  عذر کی وجہ سے قیا م   پر قدرت نہ ہو،تو اب ان   نمازوں کی قضا    بیٹھ کرکی  جاسکتی ہےاور جہاں تک سنتِ فجر کی قضا میں قیام فرض ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے، تو بعض صورتوں میں سنت فجر کی قضا میں بھی قیام فرض ہوگا اور بعض صورتوں میں نہیں۔

   جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی کی فجر کی سنتیں اور فرض دونوں  قضا ہوجائیں،تو اب اگر فجر کی قضا نمازاُسی دن زوال سے پہلے ادا کی جائے، تو اسے حکم ہے کہ سنتوں کی بھی قضا کرے اور اس صورت میں اُسے یہ سنتیں کھڑے ہوکر پڑھنا ہوں گی کہ یہ بعینہٖ وہی سنتیں ادا ہوں گی، جو فوت ہوئیں ، لہٰذا ادا کی طرح قضا کی اس صورت میں بھی سنتِ فجر میں قیام فرض ہوگا۔

   اور اگر فجر کی قضا نماز زوال کے بعد ادا کی جائے،تو اب سنتِ فجر کی قضا نہیں،لیکن اگر کوئی پڑھے ،تو یہ ایک نفل نماز ہوگی ،یونہی اگر فجر کے فرض پڑھ لیے اور سنتیں رہ گئیں، تو طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعد سنتِ فجر کی قضا کرنا مستحب ہے، مگر اس صورت میں بھی یہ ایک نفل نماز ہی ہوگی،  لہٰذا ان دونوں صورتوں میں  اگر کوئی اُسے بیٹھ کر ادا کرنا چاہے، تو بیٹھ کر ادا کرسکتا ہے،لیکن اگر عذر نہ ہو، تو اسے بھی کھڑے ہوکر پڑھنا ہی افضل ہے۔

   رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’یلزمہ  قضا ء الفائتۃ علی الصفۃ اللتی فاتت علیھا،ولذا یقضی المسافر فائتۃ الحضر الرباعیۃ اربعا،ویقضی المقیم فائتۃ السفر رکعتین؛لان القضا ء یحکی الاداء،الا لضرورۃ‘‘ترجمہ:فوت ہونے والی نماز کی قضا اُسی صفت پر پڑھنا لازم ہے جس  صفت پر وہ نماز فوت ہوئی،لہٰذا مسافر اقامت میں قضا ہونے والی چار رکعت کی قضا چار رکعت ہی ادا کرے گا اور مقیم حالت سفر میں فوت ہونے والی  نماز کی  قضا دو رکعتیں ہی کرے گا ،کیونکہ قضا  نماز،ادا کی حکایت کرتی ہے،سوائے یہ کہ ضرورت ہو۔   (رد المحتار علی الدر المختار،جلد2،صفحہ650،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’ قضا پڑھنے کے وقت کوئی عذر ہے، تو اس کا اعتبار کیا جائے گا، مثلاً: جس وقت فوت ہوئی تھی، اس وقت کھڑا ہو کر پڑھ سکتا تھا اور اب قیام نہیں کر سکتا، تو بیٹھ کر پڑھے یا اس وقت اشارہ ہی سے پڑھ سکتا ہے ،تو اشارے سے پڑھے اور صحت کے بعد اس کا اعادہ نہیں۔‘‘(بھار شریعت،حصہ4،صفحہ703،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   سنتِ فجر فرضوں  كے ساتھ فوت ہوجائے،تو زوال سے پہلے ادا کرنے میں سنتیں بھی ادا کرے اور اس کے بعد سنتوں کی قضا نہیں ،جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:” و السنن اذا فاتت عن وقتھا لم یقضھا الا رکعتی الفجر اذا فاتتا مع الفرض یقضیھا بعد طلوع الشمس الی وقت الزوال ثم یسقط“ترجمہ: اور سنتیں اگر اپنے وقت سے قضا ہوجائیں، توان کی قضا نہیں، البتہ اگر فجر کی سنتیں فرائض کے ساتھ رہ جائیں، تو طلوعِ شمس کے بعد زوال سے پہلے  قضا کی جائیں، اس کے بعد ساقط ہو جائیں گی۔(الفتاوی الھندیہ،جلد1،الباب التاسع فی النوافل،صفحہ 124،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”فجر کی نماز قضا ہوگئی اور زوال سے پہلے پڑھ لی، تو سنّتیں  بھی پڑھے ورنہ نہیں۔“(بھارِ شریعت ، حصہ4،صفحہ664،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   فجر کے فرض پڑھ لیے اور سنتیں رہ گئیں ،تو طلوع آفتاب کے بعد ان کی قضا مستحب ہے،چنانچہ رد المحتار میں ہے:’’إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لا يقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده‘‘ ترجمہ: جب فجر کی سنتیں تنہا فوت ہوجائیں تو بالاتفاق طلوع آفتاب سے پہلے ادا نہ کی جائیں، کیونکہ نماز فجر کے بعد نوافل مکروہ ہیں، رہا معاملہ طلوع فجر کے بعد کا ، تو شیخین کے نزدیک قضا نہیں، اور امام محمد نے فرمایا کہ زوال تک سنتیں قضا کر لینا میرے نزدیک پسندیدہ ہے، جیسا کہ درر میں ہے ۔کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ  اتفاق کے قریب ہے کیونکہ امام محمد  علیہ الرحمۃ کا یہ قول کہ یہ میرے نزدیک پسندیدہ ہے،اس بات پر دلیل ہے کہ اگر  کوئی اسے نہ پڑھے، تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی اور شیخین فرماتے ہیں کہ   اس کی قضا نہیں کی جائے گی اور اگر کوئی کرے تو حرج بھی نہیں،اسی طرح خبازیہ میں ہے ۔اور بعض فقہاء نے اس اختلاف کی تحقیق کی ہے اور فرمایا  ہے کہ اختلاف اس میں ہے کہ اگر کوئی قضا کرے تو یہ ابتداءً نفل ہی ادا ہوں گے یا سنت  ؟اسی طرح عنایہ میں ہے یعنی شیخین کے نزدیک نفل ادا ہوں گے اور امام محمد کے نزدیک سنت ادا ہوگی۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد2،صفحہ619،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’ اگر (فجر کی سنتیں)مع فرض قضا ہوئی ہوں ،تو ضحوہ  کبریٰ آنے تک ان کی قضا ہے اس کے بعد نہیں اور اگر فرض پڑھ لیے سنتیں رہ گئی ہیں، تو بعد بلندی آفتاب ان کا پڑھ لینا مستحب ہے۔قبل طلوع روا نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد8،صفحہ145،رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   جب سنتِ فجر فرضوں کے ساتھ فوت ہوجائیں اور ان کی قضا زوال سے پہلے کی جائے ،تو اب یہ وہی سنتیں ادا ہوں گی جو فوت ہوئیں اور اس کے علاوہ کسی اور صورت میں اگر قضا کی جائیں ،تو محض نفل ہوں گی،جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’تحقیق مقام و تنفیح مرام  یہ ہے کہ حقیقۃ قضانہیں مگر فرض یا واجب کی،الاداء فی محل اداء النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم داخل فی مطلق السنۃ فما ادی فی غیر المحل لا یکون سنۃ فلا یکون قضاء اذا القضاء مثل الفائت بل عینہ عندالمحققین نعم ماعین لہ النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم محلا بعد فوتہ فیقع سنۃ فیکون قضاء حقیقۃ(حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی ادائیگی کے محل میں ادا مطلق سنت میں شامل ہے، لہٰذا جو اس کے علاوہ وقت میں ادا ہوں گے وہ سنت ہی نہیں ہوں گی، لہذا قضا کہاں ! کیونکہ قضا فوت شدہ کی مثل بلکہ محققین علماء کے ہاں عین نماز ہوتی ہے، ہاں فوت  ہونے کے بعد جس کا وقت خود رسالتمآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے معین فرمادیا وہ ادائیگی سنت ہوگی اور قضا بھی حقیقی ہوگی ) باقی نوافل وسنن اگرچہ مؤکدہ ہوں ، مستحق قضا نہیں کہ شرعاً لازم ہی نہ تھی جو بعدفوت ذمہ پرباقی ر ہیں، مگر بعض جگہ بر خلاف قیاس نص وارد ہوگیا وہی سنتیں جو ایک محل میں ادا کی جاتی تھیں ،بعد فوت دوسری جگہ ادا فرمائی گئیں، جیسے فجر کی سنتیں جبکہ فرض کے ساتھ فوت ہوں بشرطیکہ بعد بلندی آفتاب وقبل از زوال ادا کی جائیں یا ظہر کی پہلی چار سنتیں جو فرض سے پہلے نہ پڑھی ہوں، تو بعد فرض بلکہ مذہب ارجح پر بعد سنت بعد یہ کے پڑھیں، بشرطیکہ ہنوز  وقت ظہر باقی ہو ۔۔۔ ان شرائط کےساتھ جب یہ دونوں سنتیں بعد فوت پڑھی جائیں گی تو  بعنیہا وہی سنتیں ادا ہوں گی جو فوت ہوئی تھیں اور ان کے سوا اور فوت شدہ سنتیں یا یہی سنتیں بے مراعات ان شرائط کے  پڑھی جائیں گی ،تو صرف نفل ہوں گی نہ سنت فائۃ۔ بالجملہ جو  یہ کہے کہ ان کی قضا کا حکم ہے ،وہ خطا پر ہے اور جو کہے ان کی قضا ممنوع ہے، وہ بھی غلطی پر ہے اور جوکہے ان کی قضا نہیں، مگر بعد کو پڑھ لے ،تو کچھ حرج نہیں، وہ حق  پر ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد8،صفحہ148-147،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   نفل نماز بھی کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے،جیسا کہ منیۃ المصلی اور اس کی شرح غنیۃ المتملی میں ہے : ’’(ویجوز التطوع قاعدا بغیر عذر)عن عمران بن حصین قال سالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن صلوۃ الرجل قاعدا فقال من صلی قائما فھو افضل ومن صلی قاعدا فلہ نصف اجر القائم...قال العلماء ھذا فی النافلۃ اما الفریضۃ فلا یجوز فی القعود فان عجزلم ینقص من اجرہ ‘‘ترجمہ:نفل نماز کو بغیر عذر بھی بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے،حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص  کے متعلق دریافت کیا ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :جو کھڑے ہوکر نماز پڑھے تو یہ افضل ہے اور جس نے بیٹھ کر نماز ادا کی،اس کے لیے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے ۔علماء فرماتے ہیں :یہ نفل نمازوں کے بارے میں ہے،اور فرض نمازیں تو وہ (شرعی عذر کے بغیر) بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں،پھراگر کوئی شخص (نفل نماز کھڑے ہوکر پڑھنے سے)عاجز ہو، توا س کے ثواب  میں کمی نہ ہوگی۔‘‘(منیۃالمصلی مع غنیۃ المتملی،صفحہ 236،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم