Jehri Namaz Mein Bhole Se Ahista Surah Fatiha Parhne Ka Hukum

جہری نماز میں بھولے سے آہستہ سورہ فاتحہ پڑھنا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2728

تاریخ اجراء: 13ذوالقعدۃ الحرام1445 ھ/22مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی شخص  نے مغرب کی نماز میں  بھول کر سورہ فاتحہ جہر سے پڑھنے کے بجائے آہستہ پڑھ لی ہو اور سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد اسے یاد آیا کہ اسے تو جہر سے تلاوت کرنی تھی،تو اب اس کیلئے  کیا حکم ہوگا؟نیز ایسی صورت میں یاد آنے کے بعد دوبارہ سورہ فاتحہ جہر سے تلاوت کرے    یا سورت کی تلاوت جہر سے شروع کردے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر مُنفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے   نے مغرب کی نماز میں سورہ  فاتحہ  آہستہ پڑھ  لی ،تو اُس  پر کچھ حکم نہیں کہ جہری نمازوں میں تنہا نماز پڑھنے والے  پر جہر کے ساتھ قراءت   واجب  ہی نہیں ،پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد بھی اُسے اختیار ہے کہ  چاہے تو سورت کی قراءت آہستہ کرے یا   جہر سے کرے ،مگر جہر سے قراءت افضل ہے  ،ہاں اگروہ   قضا نماز ہو اور کسی سری نماز کے وقت اس کی قضا کی جارہی ہو تو اب آہستہ قراءت لازم ہوگی  ۔

   یہ تو  منفر دکے متعلق مسئلہ تھا، امام پر چونکہ    جہری نمازوں میں جہر کے ساتھ قراءت  واجب ہے، لہذا اگر  امام  نے مغرب کی نماز میں    پوری سورہ  فاتحہ   جہر کے بجائے آہستہ پڑھ  لی  ہو ، تو  امام   پر سجدہ سہو واجب ہوجائے گا،اب اُسے حکم ہوگا کہ   فاتحہ  کا جہر کے ساتھ اعادہ   کئے بغیر ،سورت کو جہر کے ساتھ پڑھنا شروع کردے  اور نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلے ۔فاتحہ کے جہر کے ساتھ اعادے کی ممانعت اس لئے  ہے کہ سورہ فاتحہ پوری یا  اکثر پڑھ لینے کے بعد سورت سے پہلے  اس کا تکرار  نہ کرنا  واجب ہے، اگر اس صورت میں  سورہ فاتحہ کا  جہر کے ساتھ اعادہ کیا  تو جان بوجھ کر  واجب کے ترک کی وجہ سے اب سجدہ سہو  کافی نہ ہوگا،بلکہ اُس نماز کو  دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔ایسی صورت میں  اگر منفرد بھی سورہ فاتحہ  پوری آہستہ پڑھ لینے کے بعد اس کا    جہر کے ساتھ  اعادہ کرے گا ، تو  قصداً   ترکِ واجب کی وجہ سے اُس پر بھی نماز کا اعادہ واجب ہوجائے گا۔

   امام پر جہری نمازوں میں جہر کے ساتھ قراءت واجب ہے،جبکہ منفرد پر جہر واجب نہیں ،چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے: ’’(ویجھر الامام)وجوبا(فی الفجر وأولی العشاءین أداء وقضاء وجمعۃ وعیدین وتراویح ووتر) فی رمضان۔۔۔(ویخیر المنفرد فی الجھر)وھو أفضل(إن أدی)۔۔۔ (ویخافت) المنفرد(حتما)أو وجوبا(إن قضی)الجھریۃ فی وقت المخافتۃ کأن صلی العشاءبعد طلوع الشمس۔۔۔ (علی الاصح)کما فی الھدایۃ‘‘ملتقطاً۔  ‘‘ترجمہ:امام وجوبی طور پر  فجر اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں  میں،جہر کے ساتھ قراءت کرے گا،چاہے یہ نمازیں ادا  ہوں یا قضا۔یونہی  جمعہ،عیدین،تراویح اور رمضان کے وتر میں بھی جہر کرے گا۔۔۔اورتنہانمازپڑھنے والے شخص کو( جہر ی نمازوں میں)جہر کے ساتھ قراءت کرنے میں اختیار ہے ،اور افضل جہر ہے جبکہ ادا  پڑھے ۔۔۔ اورتنہا نماز پڑھنے والا شخص اگر جہری نماز کی قضا،سری نماز کے وقت میں کرے تو وجوبی طور پر  وہ آہستہ قراءت کرے گا   جیسے کوئی شخص   عشاء کی قضا نماز،طلوعِ شمس کے بعد ادا کرے(تو وہ اس میں آہستہ قراءت کرے گا)، اصح قول کے مطابق    جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار، جلد2،صفحہ305-307 ،دار المعرفۃ ،بیروت)

   امام کے جہری نماز میں سری قراءت کرنے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”لو جھر فیما یخافت أو خافت فیما یجھر وجب علیہ سجود السھو واختلفوا فی مقدار مایجب بہ السھو منھما قیل یعتبر فی الفصلین بقدر ماتجوز بہ الصلاۃ وھوالاصح“ترجمہ:اگرامام نے سری نماز میں جہری قراءت کی یا جہری نماز میں سری قراءت کی تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا ۔ پھرفقہاء کا اس مقدار کے متعلق اختلاف ہے جس سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے ۔ کہاگیا ہے کہ دونوں صورتوں میں بقدر جواز نماز معتبر ہے اور یہی اصح ہے۔(الفتاوی الھندیہ،جلد1، الباب الثاني عشر في سجود السهو،صفحہ128، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  ارشاد فرماتے ہیں:”امام نے جہری نماز میں بقدر جواز نماز یعنی ایک آیت آہستہ پڑھی یا سرّی میں جہر سے تو سجدۂ سہو واجب ہے ۔۔۔منفرد نے سری نماز میں جہر سے پڑھا تو سجدہ واجب ہے اور جہری میں آہستہ تو  نہیں۔(بھار شریعت،جلد1،حصہ 4،صفحہ714، مکتبہ المدینہ کراچی)

   سورہ فاتحہ کی تکرار سے متعلق،بحر الرائق میں ہے:’’ثم اعلم أن في مسألة القراءة الواجبة واجبين آخرين : أحدهما: وجوب تقديم الفاتحة على السورة۔۔۔ ثانيهما: الاقتصار في الأوليين على قراءة الفاتحة مرة واحدة في كل ركعة حتى إذا قرأها في ركعة منهما مرتين وجب عليه سجود السهو، كذا في الذخيرة وغيرها لكن في فتاوى قاضي خان تفصيل، وهو أنه إذا قرأها مرتين على الولاء وجب السجود، وإن فصل بينهما بالسورة لا يجب ‘‘ترجمہ:پھر جان لو کہ واجب قراءت کے مسئلے میں دو واجب اور ہیں:ایک  تو فاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھنا واجب ہے۔اور دوسرا فرض کی پہلی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کی صرف ایک بار قراءت کرنا واجب ہے یہاں تک کہ  اگر کسی نے فرض کی دونوں رکعتوں میں سے کسی رکعت میں فاتحہ کو دو بار پڑھا تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا،یونہی ذخیرہ  وغیرہ میں ہے لیکن فتاوی قاضی خان میں تفصیل ہے وہ یہ کہ جب فاتحہ کو پے درپے دو بار پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہوگا اور اگر  اس میں سورت کا فاصلہ کردیا تو واجب نہیں ہوگا ۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ313،دار الكتاب الإسلامي،بیروت)

   مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی امجدیہ میں بعینہ یہی سوال ہوا کہ مغرب کے وقت قراءت جہری کے بجائے  سری شروع کیا،الحمد شریف کے بعد یاد آیا کہ قراءت جہری کرنا چاہئے،چنانچہ امام نے پھر الحمد شریف کا اعادہ کیا یعنی جہر کے ساتھ پڑھا  تو ایسی صورت میں  کیاحکم ہے؟

   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:’’امام کو چاہئے کہ سورہ فاتحہ جب پڑھ چکا تو اس کا اعادہ نہ کرے ،بلکہ اب سورت کو جہر سے پڑھے  اور ختم نماز پر سجدہ سہو کرے کہ جہر سے پڑھنا امام پر واجب تھا  اور یہ واجب امام سے سہوا ترک ہوا ،اور فاتحہ کی تکرار ترک واجب ہے کہ فاتحہ اور سورت کے درمیان فصل طویل جائز نہیں۔‘‘(فتاوی امجدیہ، جلد1،صفحہ282،مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم