Jaye Namaz Ke Neeche Najasat Lagi Ho To Namaz Ka Hukum?

جائے نماز کے نیچے نجاست لگی ہو، تو نماز کا حکم

مجیب:ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-3064

تاریخ اجراء:27جمادی الاولی1445ھ/12دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  میں نے  جائے نماز پر نماز پڑھی ،نماز پڑھنے کے بعد دیکھا تو جائے نماز کے نیچے ایک درہم سے زیادہ نجاست غلیظہ لگی ہوئی تھی،مگر جائے نماز کافی موٹی تھی ،اس نجاست کا اثر اوپر کے حصے کی طرف ظاہر نہیں ہواتھا ،اس صورت میں میری نماز ہوئی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جائے نمازچاہے جتنی موٹی ہو، وہ ایک ہی کپڑے کے حکم میں ہے ،اس لیے چاہے نجاست کا اثر اوپر نہ آیا ہو تب بھی اس  نجاست والی جگہ پر نماز نہیں پڑھ سکتے ۔ پوچھی گئی صورت میں اگرجائے نماز کی نجاست والی جگہ وہ نہیں تھی جس جگہ پرنماز کی حالت میں پاؤں،ہاتھ،گھٹنے،پیشانی،ناک رکھے جاتے ہیں ، تب تو نماز ہوگئی،لیکن اگر قدم یا مواضع سجود(یعنی سجدے کی حالت میں ہاتھ،گھٹنے،پیشانی ،ناک )  اس نجس  جگہ پر پڑے ،اور جو جو اعضاء نجاست کی جگہ پرپڑے ، ان سب کی نجاست کو ملائیں،تو یہ ایک درہم سے زیادہ بن جاتی ہے،تو نماز نہیں ہوگی۔ایک درہم جتنی ہی نجاست بنتی ہے،تو نماز مکروہ تحریمی،واجب الاعادہ ہوگی اور اگر ایک درہم سے کم بنتی ہے، تو نمازاگرچہ ہوجائے گی،مگر خلاف سنت ہوگی۔

   غنیہ شرح منیہ میں ہے:”ولو کان علی اللبد نجاسۃ فقلب المصلی الوجہ الذی فیہ النجاسۃ الی اسفل وصلی علی الوجہ الثانی الذی لیس علیہ نجاسۃ۔۔۔۔۔قال ابویوسف لاتجوز صلاتہ وان کان اللبد او الثوب غلیظین“ ترجمہ:اگر اونی بچھونے پر ایک طرف نجاست لگی تھی اور نماز پڑھنے والے نے اس کو اُلٹا کرلیا اور جس طرف نجاست نہیں لگی تھی اس طرف نماز پڑھی۔۔۔۔امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نماز جائز نہیں ہے،اگرچہ اونی بچھونا یا کپڑا موٹا  ہو۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، جلد1،  صفحہ378،مطبوعہ بیروت)

   بہارشریعت میں ہے:”کسی کپڑے میں نَجاست لگی اور وہ نَجاست اسی طرف رہ گئی ،دوسری جانب اس نے اثر نہیں کیا تو اس کو لوٹ کر دوسری طرف جدھر نَجاست نہیں لگی ہے ، نماز نہیں پڑھ سکتے اگرچہ کتنا ہی موٹا ہو مگر جبکہ وہ نَجاست مَواضِعِ سجود سے الگ ہو۔ “(بھارشریعت ،جلد1،حصہ2،صفحہ404،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نماز کے فساد کی صورتیں بیان کرتے ہوئے تنویرالابصار مع ردالمحتار میں فرمایا:”(وصلاتہ علی مصلی مضرب نجس البطانۃ) أی مخیط ،و انما تفسد اذا کان النجس المانع فی موضع قیامہ أو جبھتہ أو فی موضع یدیہ أو رکبتیہ علی ما مر“ ترجمہ: ایسے سلے ہوئے  مصلے پر نماز پڑھنا جس کا باطنی حصہ ناپاک ہو۔نماز اس وقت فاسد ہوگی جبکہ نماز سے مانع نجاست کھڑے ہونے کی جگہ یا پیشانی رکھنے کی جگہ یا ہاتھ رکھنے کی جگہ یا گھٹنے رکھنے کی جگہ پر ہو،جیساکہ پیچھے بھی گزرچکا۔ (ردالمحتار ،جلد1،صفحہ 626،مطبوعہ بیروت)

   بہارشریعت میں فرمایا:”جا نماز میں ہاتھ، پاؤں، پیشانی اور ناک رکھنے کی جگہ کا نماز پڑھنے میں پاک ہونا ضروری ہے، باقی جگہ اگر نَجاست ہو نماز میں حَرَج نہیں، ہاں نماز میں نَجاست کے قرب سے بچنا چاہیے۔   (بھارشریعت ،جلد1،حصہ2،صفحہ 404،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوی ہندیہ میں ہے:”النجاسۃ ان کانت غلیظۃ وھی أکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ والصلاۃ بھا باطلۃ ،وان کانت مقدار درھم فغسلھا واجب والصلاۃ معھا جائزۃ وان کانت أقل من قدر الدرھم فغسلھا سنۃ“ترجمہ:نجاست اگرغلیظہ ہو اور وہ درہم سے زائد ہو تو اس کا دھونا فرض ہے ،بغیردھوئےنجاست کے ساتھ ہی نماز پڑھ لی، تو نماز باطل ہے۔اگر ایک درہم کے برابر ہے، تو اس نجاست کا دھونا واجب ،بے دھوئے نماز پڑھ لی تو  فرض ادا ہوجائیں گے،اگر ایک درہم سے بھی کم ہے، تو اس نجاست کا دھونا سنت ہے۔ (فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ58،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:” شرطِ نماز اس قدر نجاست سے پاک ہونا ہے کہ بغیر پاک کيے نماز ہوگی ہی نہیں، مثلاً نجاست غلیظہ درہم سے زائد۔“ (بھارشریعت ،جلد1،حصہ3،صفحہ 476،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید فرمایا:”اگر نجاست قدر مانع سے کم ہے، جب بھی مکروہ ہے، پھر نجاست غلیظہ بقدر درہم ہے ،تو مکروہ تحریمی اور اس سے کم تو خلاف سنت۔ “(بھارشریعت، جلد1،حصہ3،صفحہ 477،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم