Ishraq Aur Chasht Ki Fazilat Kya Hai Aur Ye Kis Ko Hasil Hogi ?

اشراق و چاشت کی فضیلت کیا ہے اور یہ کس کو حاصل ہوگی ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0236

تاریخ اجراء: 06ربیع الثانی1445ھ/21 نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں اور میرا معمول یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھاکر مصلے پر ہی مختصر وظیفہ پڑھتا ہوں، اس کے بعد تفسیر صراط الجنان سے تین آیات کی تفسیر بیان کی جاتی ہے، پھر دعا کرکے لوگوں سے ملاقات و سلام دعا کے لیےاپنی جگہ سے اٹھ جاتا ہوں ،اس کے بعد کبھی مصلے ہی پر اور کبھی مسجد کی دوسری یا تیسری صف میں بیٹھ کر اور کبھی اپنے حجرے میں جاکر   وظائف پڑھتا ہوں، پھر وقت ہوجانے پر نمازِ اشراق و چاشت کی ادائیگی کرتا ہوں،اس دوران میں کوئی دنیاوی کام کاج یا بات چیت بالکل نہیں کرتا، البتہ کوئی شرعی مسئلہ پوچھے تو میں علم ہونے کی صورت میں بتادیتا ہوں اور جمعہ والے دن نمازِ فجر  کے بعد صلوٰۃ و سلام بھی پڑھا جاتا ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ  میرے اس معمول کو مد نظر رکھ کر ارشاد فرمائیں کہ کیا  مجھے  احادیث مبارکہ میں اشراق و چاشت کی نماز کے بیان کیے گئےفضائل حاصل ہوں گے؟کیا ان فضائل کے حصول کے لیے بعد نماز ِ فجر اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہنا شرط ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اشراق و چاشت کی نماز کے احادیث مبارکہ میں مختلف قسم کے فضائل و برکات بیان فرمائے گئے ہیں ،ان میں سے بعض تو عمومی  فضائل ہیں،جن میں بعد نمازِ فجر اسی جگہ بیٹھ کر ذکر میں مشغول رہنے کی قید نہیں ،جیسے اس نماز  کی ادائیگی سے اعضاء کا صدقہ ادا ہوجانااورتمام ضرورتوں و حاجتوں کے لیے اللہ پاک کا کافی ہونا اور ہر نا پسندیدہ چیز سے بندے کی حفاظت فرمانا، وغیرہا،لہٰذا یہ فضائل  و برکات تو ہر اس مسلمان کو حاصل ہوں گے جو  اس نماز کی ادائیگی کرے، اگرچہ وہ بعد نمازِ فجر کسی جائز دنیاوی کلام یا  کام میں ہی کیوں نہ مشغول ہوجائے،جبکہ  کچھ خصوصی فضائل ہیں،جن میں بعدِ نماز فجر وقتِ نمازِ اشراق و چاشت ہوجانے تک  اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہنے اور ذکر و خیر میں مشغول رہنے کی قید ہے، جیسے کامل حج و عمرہ کا ثواب اور اس  کی ادائیگی کی برکت سے کثیر گناہوں کی معافی۔تو اس طرح کی احادیث مبارکہ میں  اصل مقصود  قعود (بیٹھنا ) نہیں ہے، بلکہ اس پورے وقت میں خیر و ذکر میں مشغول رہنا ہے، چاہے اسی جگہ بیٹھ کر ذکر کرتا  رہے یا اس جگہ  سے اٹھ کر مسجد کے کسی حصے میں ذکر میں مشغول رہے ،بلکہ اگر ذکر میں مشغول رہتے ہوئے اپنے گھر ہی آجائے اور یہیں نمازِ اشراق وغیرہ ادا کرے، تو بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی،ہاں افضل و مستحب  یہی ہے کہ  جہاں نمازِ فجر پڑھی وہیں بیٹھ کر ذکر و خیر میں مشغول رہے کہ   اولاً تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ بھی یہی تھا،ثانیاً حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند فرمایا  اور ثالثاً یہ کہ بعد نماز ِ فجر اسی جگہ بیٹھ کر ذکر میں مشغول رہنا خود مستقل طور پر مندوب  و مستحب ہے ۔

   لہٰذا سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرآپ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد کوئی دنیاوی کام یا کلام نہیں کرتے، بلکہ اپنے وظائف ،قرآن کریم کی تلاوت و تفسیر ، بعد ِ نماز دعا،مسلمانوں سے سلام، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام  اور دلائل الخیرات شریف  وغیرہ پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں، تو  آپ کو احادیث مبارکہ میں بیان کیےگئے نمازِ اشراق و چاشت کے فضائل حاصل ہوں گے ،کیونکہ یہ امور  خیر و ذکر   میں داخل ہے ۔

   نماز ِ اشراق و چاشت کے کچھ عمومی فضائل،جن میں بعد نماز فجر  اسی جگہ بیٹھے رہنے اور ذکر میں مشغول رہنے کی قید نہیں :

   (1)نمازِ چاشت کی وجہ سے تمام اعضاءکا صدقہ ادا ہوجانے کے متعلق مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے ،واللفظ للآخر:”عن أبي ذر عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أنه قال: «يصبح على كل سلامى من أحدكم صدقة، فكل تسبيحة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، ويجزئ من ذلك ركعتان يركعهما من الضحى“ ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تم میں سے ہر ایک کےہر جوڑ  پر ایک صدقہ واجب ہے، تو سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ، الحمد للہ کہنا صدقہ ہے،

   لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، اور ان سب کی طرف   سےچاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں۔(مسند احمد ،ج35،ص 378،مؤسسۃ الرسالہ)( الصحیح لمسلم، ج01،ص 498،دار احیاء التراث العربی)

   (2)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”قال: ابن آدم !اركع لي أربع ركعات من أول النهار أكفك آخره “ترجمہ:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اے ابن آدم! تو میرے لیے دن کے شروع میں چار رکعتیں پڑھ ، میں دن کے آخر میں تجھے کافی ہوں گا ۔(سنن الترمذی،ج 02،ص 340،مطبعۃ مصطفی البابی،مصر)

   اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:”(أكفك) ، أي: مهماتك (آخره) ، أي: إلى آخر النهار، قال الطيبي، أي: أكفك شغلك وحوائجك، وأدفع عنك ما تكرهه بعد صلاتك إلى آخر النهار “ترجمہ : مراد یہ ہے کہ میں دن کے آخر تک تیرے تمام اہم کاموں کے لیے کفایت کروں گا ،امام طیبی نے فرمایا:مراد یہ ہے کہ میں تیرے تمام کاموں اور حاجتوں کے لیے کفایت کروں گا اور تجھ سے اس نماز کےپڑھ لینے کے بعد دن کے  آخر تک تیری ہر ناپسندیدہ چیز کو دور کروں گا ۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،ج03،ص 980،دار الفکر ،بیروت)

   نمازِ اشراق کے  خصوصی فضائل جن میں بعد نماز فجر  اسی جگہ بیٹھے رہنے اور ذکر میں مشغول رہنے کی قیدہے:

   (1)نماز ِ اشراق پڑھنے والے کو کامل و مقبول حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے ،اس حوالے سے بعض روایات میں صرف بعد نمازِ فجر اسی جگہ بیٹھے رہنے کی قید ہے ،چنانچہ معجم اوسط میں حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :”من صلى الصبح، ثم جلس في مجلسه حتى تمكنه الصلاة، كانت بمنزلة عمرة وحجة متقبلتين“ترجمہ:جس نے نمازِ فجر پڑھی، پھر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا تو وہ نماز اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کے برابر ہوگی ۔(المعجم الاوسط،ج05،ص 375،دار الحرمین ،القاھرہ)

   اور بعض روایات میں بعد نماز ِ فجر اسی جگہ بیٹھے رہنے کے ساتھ   ذکر و خیر میں مشغول رہنے کی قید بھی موجود ہے، چنانچہ  سنن ترمذی شریف میں ہے:”عن أنس قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:” من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر اللہ حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «تامة تامة تامة»“ترجمہ:حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نمازِ فجر باجماعت پڑھی ،پھر وہیں بیٹھ کر آفتاب طلوع ہونے تک ذکر الٰہی کرتا رہا ،پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لیے یہ نماز ایک حج و عمرہ کے اجر کی طرح ہوگی ،حضرت انس کہتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ یہ نماز  بالکل کامل و تام حج و عمرہ کے برابر ہے ۔(سنن الترمذی،ج 02،ص 481،مطبعۃ مصطفی البابی)

   (2)نمازِ چاشت  پڑھنے والے کے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے ،اس حوالے سے بھی  بعض روایات میں مذکورہ دونوں قیود موجود ہیں،چنانچہ  كنز العمال اور مسند ابو یعلیٰ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک کچھ اس طرح منقول  ہے ،بالفاظ متقاربۃ:”من صلى الفجر فقعد في مقعده، فلم يبلغ بشيء من أمر الدنيا يذكر اللہ عز وجل، حتى يصلي الضحى أربع ركعات، خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه“ترجمہ:جس نے نمازِ فجر پڑھی ،پھر اپنی اسی جگہ بیٹھا رہا اور اس نے کوئی دنیاوی کام نہ کیا،  بس اللہ کا ذکر کرتا رہا ،یہاں تک کہ اس نے نمازِ چاشت کی چار رکعتیں پڑھ لیں، تو اپنے گناہوں سے ایسا نکل جائے گا، جیساکہ اس دن تھا جب اس کی والدہ نے اس کو پیدا کیا تھا ۔(کنز العمال،ج02،ص 152،مؤسسۃ الرسالہ) (مسند ابی یعلیٰ،ج07،ص 329،دار المامون)

   اور سنن ابی داؤد میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک کچھ اس طرح منقول  ہے:”من قعد في مصلاه حين ينصرف من صلاة الصبح حتى يسبح ركعتي الضحى لا يقول إلا خيرا، غفر له خطاياه، وإن كانت أكثر من زبد البحر“ترجمہ:جو نمازِ فجر سے فارغ ہوکر اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ اس نے نمازِ چاشت کی دو رکعتیں پڑھ لیں ،اس دوران صرف بھلائی کی بات کی، تو اس کی خطائیں بخش دی جائیں گی، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔(سنن ابی داؤد،ج02،ص 461،دار الرسالۃ العالمیہ)

   جن روایات میں بعد نمازِ فجر اسی جگہ بیٹھے رہنے اور ذکر و خیر میں مشغول رہنے کی قید ہے ،ان کی وضاحت:

   نمازِ اشراق و چاشت کے فضائل کے متعلق وہ تمام روایات جن میں نمازِ فجر پڑھ لینے کے بعد اسی جگہ بیٹھے رہنے اور ذکر و خیر میں مشغول رہنے کی قید ہے ،ان تمام میں اصل مقصود اسی جگہ بیٹھے رہنا نہیں ہے، بلکہ اس تمام وقت میں ذکر الٰہی کرتے رہنا ہے ،لہٰذا اگر کوئی شخص وہیں ذکر کرتا رہا یا وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ اگرچہ اپنے گھرہی چلا گیا،چاہے عذر کی وجہ سے ہو یا بلا عذر   اور اس دوران وہ  ذکر میں مشغول رہا اور دنیاوی کام یا کلام نہ کیا، تو اسے بھی یہ فضائل حاصل ہوں گے،اس پر  معتبر شارحین عظام اور معتمد فقہائےکرام  کی تصریحات موجود ہیں۔

   چنانچہ  شارح جلیل علامہ علی بن سلطان قاری رحمۃ اللہ علیہ سنن ابو دا ؤد کی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”(قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من قعد) أي: استمر (في مصلاه) : من المسجد أو البيت مشتغلا بالذكر أو الفكر، أو مفيدا للعلم، أو مستفيدا، أو طائفا بالبيت (حين ينصرف من صلاة الصبح حتى يسبح ركعتي الضحى لا يقول) ، أي: فيما بينهما (إلا خيرا) : وهو ما يترتب عليه الثواب، واكتفى بالقول عن الفعل. (غفر له خطاياه وإن كانت أكثر من زبد البحر )“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو نمازِ فجر سے فارغ ہوکر  اپنی مسجد یا گھر والی  نماز کی جگہ پر ذکر یا فکر میں مشغول رہا یا علم پھیلاتا یا سیکھتا رہا یا خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہا  یہاں تک کہ اس نے نمازِ چاشت کی دو رکعتیں پڑھ لیں ، اس دوران صرف بھلائی کی بات کی اور بھلائی سے مراد وہ ہے جس پر ثواب مرتب ہو اور یہاں قول بول کر فعل سےاکتفاء کیا گیا ہے،  تو اس کی خطائیں بخش دی جائیں گی اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،باب صلوٰۃ الضحیٰ،ج03،ص 982،دار الفکر ،بیروت)

   اسی کی مزید وضاحت  آپ علیہ الرحمۃ نے دوسری حدیث کے تحت فرمائی ہے،چنانچہ  سنن ترمذی کی حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں :”(ثم قعد يذكر اللہ) أي: استمر في مكانه ومسجده الذي صلى فيه، فلا ينافيه القيام لطواف أو لطلب علم أو مجلس وعظ في المسجد، بل وكذا لو رجع إلى بيته واستمر على الذكر“ترجمہ: پھر وہ بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا رہا یعنی اپنی جگہ اور اس مسجد میں جس میں نماز پڑھی،ذکر الٰہی میں مشغول رہا تو طواف، طلبِ علم،مسجد میں ہونے والی مجلس وعظ وغیرہ کے لیے اس کا کھڑا ہوجانا اس کے منافی نہیں ہوگا بلکہ اسی طرح اگر وہ گھر لوٹ آیا اور ذکر میں مشغول رہا تو بھی یہی معاملہ ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ،باب الذکر بعد الصلوٰۃ،ج02،ص 770،دار الفکر ،بیروت)

   یہاں علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ نےواضح فرمادیا کہ قعود سے مراد استمرار بالذکر ہے ، کیونکہ آپ نے ذکر میں مشغول رہتے ہوئے گھر لوٹ کر نمازِ اشراق پڑھنے والے کے لیے بھی اس فضیلت کو ثابت مانا ہے ۔

   اسی طرح  فقیہ جلیل علامہ سید احمد طحطاوی علیہ الرحمۃ ’’ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ‘‘میں فرماتے ہیں : ”(قوله: ثم قعد يذكر اللہ تعالى) أفاد العلامة القاري في شرح الحصن الحصين أن القعود ليس بشرط وإنما المدار على الاشتغال بالذكر هذا الوقت (قوله: ثم صلى ركعتين) ويقال لهما ركعتا الإشراق وهما غير سنة الضحى“ترجمہ:حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (پھر وہ بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا رہا )علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ نے شرح حصن حصین میں یہ افادہ فرمایا ہے کہ بیٹھنا شرط نہیں ہے، بلکہ اس فضیلت کے حصول کا دار و مدار اس پورے وقت میں ذکر الٰہی میں مشغول رہنے پر ہے اور ان دونوں رکعتوں کو اشراق کی دو رکعتیں کہاجاتا ہے اور یہ سنتِ چاشت کے علاوہ ہیں ۔( حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ج01،ص 181،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   علامہ سید طحطاوی علیہ الرحمۃ نے علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ کے جس  کلام کی طرف اشارہ فرمایا ہے،وہ کلام یہ ہے:”(ثم قعد)أی استمر علی حال ذکرہ سواء یکون قائما أو قاعدا أو مضطجعا و الجلوس أفضل الا اذا عارضہ أمر کالقیام للطواف أو لصلوٰۃ الجنازۃ أو لحضور درس و نحوھا “ترجمہ:پھر وہ بیٹھا رہا یعنی اپنے ذکر والی حالت پر ہی مستمر رہا ،اب یہ چاہے بیٹھ کر ہو یا کھڑے ہوکر یا لیٹ کر ،ہاں بیٹھنا افضل ہے اِلَّا یہ کہ کوئی دوسرا امر درپیش ہو، جیسے طواف  یا نماز جنازہ یا درس یا اس طرح کی دوسری چیزوں میں شرکت کے لیے کھڑا ہونا ۔

   کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں :”وفیہ اشارۃ الیٰ أنہ لا یلزمہ أن یقعد فی مکانہ الذی صلیٰ فیہ بل لہ أن یتحول عن الصف الی الموضع الذی أراد  أن یجلس فیہ لذکر أو تلاوۃ أو تعلم أو تعلیم ،فان المقصود الأصلی انما ھو اشغال الوقت بالذکر الالٰھی و لو فی بیتہ أو  دکانہ ۔نعم! فی محلہ أکمل و فی مسجدہ أفضل و فیہ ایماء الیٰ أن المسجد کلہ مکان واحد و موضع واحد متحد حکما“ترجمہ:اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص پر اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا جس میں اس نے نماز فجر پڑھی ہے ،لازم نہیں ہے ،بلکہ اس کو یہ اختیار ہے کہ وہ صف سے اس جگہ کی طرف جاسکتا ہے جہاں بھی وہ ذکر،تلاوت یا تعلیم وتعلم میں مشغول رہنا چاہتا ہے ،کیونکہ اصل مقصود اس پورے وقت میں ذکر الٰہی کرتے رہنا ہے ،اگرچہ یہ اپنے گھر میں ہو یا دکان میں ،ہاں اسی جگہ پر زیادہ کامل اور اسی مسجد میں زیادہ باعث فضیلت ہے اور اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ پوری مسجد ایک ہی مکان ہے اور ایک جگہ حکمی طور پر متحد مانی جاتی ہے ۔  (الحرز الثمین شرح الحصن الحصین،جلد 01،ص 191،194،مطبوعہ ریاض)

   افضل یہی ہے کہ  جہاں نمازِ فجر پڑھی وہیں بیٹھ  کر آفتاب بلند ہونے  تک  ذکر و خیر میں مشغول رہے:

   بعد نمازِ فجر اسی جگہ بیٹھ کر وقت اشراق تک ذکر و فکر میں مشغول رہنا افضل ہے کہ یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ  تھا،چنانچہ سنن ترمذی میں   حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:”كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا صلى الفجر قعد في مصلاه حتى تطلع الشمس “ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازِ فجر ادا فرمالیتے تو اپنی نماز کی جگہ ہی تشریف فرما رہتے، یہاں تک سورج طلوع ہوجاتا۔ (سنن الترمذی، ج02،ص 481،مطبعۃ مصطفی البابی،مصر)

   دوسری وجہ یہ ہے کہ یہی طریقہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا ،چنانچہ سنن ابو داؤد  میں ہے :”قال رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم: لأن أقعد مع قوم يذكرون اللہ من صلاة الغداة حتى تطلع الشمس أحب إلي من أن أعتق أربعة من ولد إسماعيل“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا اس قوم کے ساتھ بیٹھنا جو نمازِ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی کرتی ہے مجھے اولاد اسماعیل کے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔(سنن ابی داؤد،ج5،ص 508،دار الرسالۃ العالمیہ)

   اس کےتحت مرقاۃ میں ہے:”( يذكرون اللہ) وهو يعم الدعاء والتلاوة ومذاكرة العلم وذكر الصالحين ۔۔ ولعل ذكر أربعة لأن المفضل مجموع أربعة أشياء: ذكر اللہ، والقعود له، والاجتماع عليه، والاستمرار به إلى الطلوع“ترجمہ:ایسی قوم جو اللہ کا ذکر کرتی ہے،ذکر سے مراد عام ہے ،جیسے دعا،تلاوت قرآن،علمی مذاکرہ اور صالحین کا ذکر  اور شاید چار غلاموں کی آزادی کا ذکر اس لیے کیا کیونکہ باعث فضیلت چیز کا مجموعہ چار چیزیں ہیں،ذکرالٰہی،اس کے لیے بیٹھنا ،جمع ہونا اور طلوع تک اس پر استمرار۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، باب الذکر بعد الصلوٰۃ،ج02،ص 770،دار الفکر ،بیروت)

   تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ طریقہ مستقل طور پر مندوب و مستحب ہے ،چنانچہ مبسوط امام شمس الائمہ سرخسی میں ہے : ”المكث في مكان الصلاة حتى تطلع الشمس مندوب إليه قال  صلى اللہ عليه وسلم :من صلى الفجر ومكث حتى تطلع الشمس فكأنما أعتق أربع رقاب من ولد إسماعيل “ترجمہ:سورج طلوع ہوجانے تک نماز کی جگہ ٹھہرے رہنا مستحب و مندوب ہے ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نمازِ فجر پڑھی اور وہ طلوع آفتاب تک ٹھہرا رہا، تو گویا اس نے اولاد اسماعیل میں سے چار غلاموں کو آزاد کیا ۔ (المبسوط للسرخسی،باب مواقیت الصلوٰۃ،ج01،ص 146،دار المعرفہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم