Isha Jamaat Se Na Parhi To Witr Jamaat Se Parhna

عشاء جماعت سے نہ پڑھی تو وتر جماعت سے پڑھنا

مجیب: مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2579

تاریخ اجراء: 09رمضان المبارک1445 ھ/20مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    اگر عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ اد انہ کی ہو، تو کیا وتر جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رمضان المبارک میں اگر کسی کی عشاء کی جماعت فوت ہو گئی اور اس نے نمازِ عشاء تنہا پڑھی ہو، تو اسے چاہئے کہ وتر بھی تنہا پڑھے۔ فقہائے کرام نے اس کی وجہ  یہ بیان فرمائی کہ وتر کی جماعت، جماعتِ عشاء کے تابع ہے، تو جب عشاء کی نماز جماعت سے رہ گئی، تو وتر بھی جماعت سے نہیں پڑھے جائیں گے۔

   ردالمحتارمیں ہے "ثم رأيت القهستاني ذكر تصحيح ما ذكره المصنف، ثم قال: لكنه إذا لم يصل الفرض معه لا يتبعه في الوتر اهـ ۔۔۔۔لكن ينبغي أن يكون قول القهستاني معه احترازا عن صلاتها منفردا؛ أما لو صلاها جماعة مع غيره ثم صلى الوتر معه لا كراهة تأمل."(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج 2،ص 603،604،مطبوعہ: کوئٹہ)

   اس کے تحت جد الممتار میں ہے’’فالمتحصل مماذکر:ان من صلی الفرض بجماعۃ، یجوز لہ الدخول فی جماعۃ الوتر، سواء صلی الفرض خلف ھذا الامام او خلف غیرہ، سواء صلی التراویح وحدہ او خلف ھذا الامام او خلف غیرہ،۔۔۔واللہ تعالی اعلم ۔ والمنفرد فی الفرض ینفرد فی الوتر‘‘ ترجمہ : جس نے عشاء کے فرض جماعت کے ساتھ ادا کئے، وہ وتر کی جماعت میں شامل ہو سکتا ہے، چاہے فرض اسی امام کے پیچھے ادا کئے ہوں، یا اس کے علاوہ کسی اور کے، اور چاہے تروایح تنہا پڑھی ہوں یا اسی امام یا اس کے سوا کسی اور امام کے پیچھے ادا کی ہوں،  اور فرض تنہا پڑھنے والا وتر بھی تنہا ادا کرے۔(جد الممتار، کتاب الصلوۃ، جلد 3، صفحہ 493، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوی امجدیہ میں ہے"جو شخص نمازِ عشاء رمضان میں تنہا پڑھے، وہ (وتر کی)جماعت میں شریک نہ ہو، اسے چاہئے کہ وتر بھی تنہا پڑھے۔"(فتاوی امجدیہ، جلد 1،حصہ 1،صفحہ 201، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم