Akele Namaz Parhne Ke Baad Maghrib Ki Jamaat Mein Shamil Hona

 

اکیلے نماز پڑھنے کے بعد مغرب کی جماعت میں شامل ہونے کا حکم

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-3364

تاریخ اجراء: 09جمادی الاخریٰ 1446ھ/12دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   منفرد مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد جماعت میں شامل ہوگیا ، تو پہلی نماز جو منفرد نے  پڑھی تھی، اُس کا  کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولایہ یادرہے کہ بلاوجہ شرعی جماعت چھوڑناجائزنہیں ہوتالہذااگرمنفردنے بلااجازت شرعی جماعت سے پہلے ہی اپنی نمازپڑھ لی تھی تووہ گنہگارہوالیکن اس کی نمازہوگئی ،اوراجازت شرعی سے یاغلط فہمی سے پہلے نمازپڑھ لی  تو گنہگار بھی نہیں ہوااورنمازبھی ہوگئی ،پھراس کے نماز پڑھنے کے بعدمغرب کی جماعت شروع ہوئی ،اب جہاں وہ ہے، اگر اسی جگہ مغرب کی جماعت شروع ہوئی تواسے حکم ہے کہ وہاں سے نکل جائے ، جماعت میں شریک نہ ہو کہ جماعت میں یہ شمولیت بطورنفل ہوگی اورتین رکعات نفل نہیں ہوتےاورچوتھی ملائے گاتوامام کی مخالفت کی وجہ سے کراہت لازم آئے گی ،اوراگروہاں ہی رہے گاتولوگ بدگمان ہوں گے ۔اوراگروہ اس کے باوجودجماعت میں شامل ہوجاتاہے تواس نے براکیا،اب اس صورت میں پہلے پڑھی ہوئی نمازپرکوئی اثرنہیں پڑے گااوراس کے لیے یہ حکم ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد مزید ایک رکعت ملائے اور چار پوری کر لے۔

   کنز الدقائق اور اس کے تحت نہر الفائق میں ہے: ”(وإن صلى) وحده (لا) أي: لا يكره له الخروج لأنه أجاب داعي الله تعالى ۔۔(إلافي الظهر والعشاء إن شرع) المؤذن (في الإقامة) فيكره له بالخروج وإن صلى وحده لأنه مخالف للجماعة عيانا والتنفل بعدهما غير مكروه ولذا قيد بالظهر والعشاء لأنه يكره في غيرهما لكراهة التنفل بعد الفجر والعصر ولزوم أحد المحذورين السابقين لو اقتدى في المغرب “ ترجمہ:اور اگر اس نے تنہا نماز پڑھ لی تو اس کے لیے مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں کیونکہ اس نے  موذن کی بات کوقبول کرلیا،مگر یہ کہ ظہر یا عشاء کی جماعت ہو اور مؤذن اقامت کہنا شروع کر چکا ہو تو اب اس کےلیے مسجد سے باہر جانا، مکروہ ہے اگر چہ وہ تنہا  نماز پڑھ چکا  ہو کہ وہ جماعت کا کھلا مخالف ہے  اور ان دونوں کے بعد نفل پڑھنا مکروہ نہیں  ،اوراسی وجہ سے ظہر اور عشاء کی قید لگائی کہ  ان کے علاوہ نمازوں میں اپنی نمازپڑھ لینے کے بعدجماعت میں شامل ہونامکروہ ہے کہ  فجر و عصر کے بعد نفل مکروہ ہے اور مغرب میں اگر وہ اقتدا کرے تو سابقہ  دو ممنوع کاموں میں سے ایک (جماعت کی مخالفت والامعاملہ)لازم آئے گا  ۔ (النهر الفائق شرح كنز الدقائق ،ج01،ص310،دار الکتب العلمیۃ)

   فتاوی شامی میں ہے" ولا يقتدي لكراهة التنفل بعد الفجر، وبالثلاث في المغرب، وفي جعلها أربعا مخالفة لإمامه، فإن اقتدى أتمها أربعا لأنه أحوط لكراهة التنفل بالثلاث تحريما، ومخالفة الإمام مشروعة في الجملة كالمسبوق فيما يقضى والمقتدي بمسافر، وتمامه في البحر۔" ترجمہ:فجرکی نمازپڑھ لینے کے بعدامام کی اقتداء نہیں کرے کہ فجر کے بعد نفل مکروہ ہے، اورمغرب کی نمازپڑھ لینے کے بعدامام کی اقتداء نہیں کرے گاکہ  مغرب کی صورت  تین نوافل اداکرنالازم آئے گااورچاررکعات اداکرنے میں امام کی مخالفت ہوگی ، البتہ اگر کوئی اقتداء کر ہی لے، تو پھر  پوری چاررکعات اداکرے کیونکہ اس میں زیادہ احتیاط ہے،اس لیے کہ  تین نوافل پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے جبکہ  امام کی مخالفت بعض صورتوں میں جائزہے جیسے مسبوق جب اپنی  رہ جانے والی بقیہ رکعات اداکرتاہے اورمسافرکی اقتداکرنے والامقیم جب اپنی بقیہ رکعات اداکرتاہے توان صورتوں میں امام کی مخالفت ہوتی ہے لیکن یہ  مخالفت جائز ہے ۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل بحر الرائق میں ہے۔ (فتاوی شامی، جلد 2، صفحہ 52، مطبوعہ :دار الفکر،بیروت)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا:" ایک شخص فرض تنہا پڑھ چکا تھا اب مسجد میں جماعت قائم ہوئی اور یہ اس وقت مسجد میں موجود ہے تو اب اسے کیا حکم ہے؟ "

   اس کے جواب میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے فرمایا:"

   "ظہر  و عشاء  میں ضرور  شریک  ہو جائے کہ اگر تکبیر سن کر باہر چلاگیا یا وہیں بیٹھا رہا تو دونوں صورت میں مبتلائے کراہت وتہمت ترک جماعت ہوا اور فجر  و عصر  و مغرب میں شریک نہ ہو کہ قول جمہور  پر  تین رکعت نفل نہیں ہوتے اور چوتھی ملائے گا تو بسبب مخالفت امام کراہت لازم آئے گی اور فجر وعصر کے بعد تو نوافل مکروہ ہی ہیں اور ویسے بیٹھا رہے گا تو کراہت اور اشد ہوگی لہٰذا ان نمازوں میں ضرور  ہوا کہ باہر چلاجائے۔" (فتاوی رضویہ،ج08، ص137، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم