Imamat Ki Kitni Sharait Hain Aur Kya Imamat Ke liye Darhi Hone Zarori Hai ?

امامت کی کتنی شرائط ہیں اور کیا امامت کے لیے داڑھی ہونا ضروری ہے ؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar-9149

تاریخ اجراء:15صفرالمظفر1441ھ/15اکتوبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں ہے کہ کیاامامت کے لیے داڑھی کاہوناضروری ہے، کیونکہ بعض لوگوں کاکہناہے کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں امامت کی چارشرائط  بیان کی گئی ہیں اور ان شرائط میں داڑھی کاذکرموجودنہیں ہےاوران لوگوں کایہ بھی کہناہے کہ فقہ  حنفیہ میں امامت کی اکیس شرائط بیان کی گئی ہیں  اوران میں بھی داڑھی کاذکرموجودنہیں ہے۔شرعی رہنمائی فرمائیں:  کیاامامت کے لیے  داڑھی   ہوناضروری ہے،اس کاشریعت میں کیاثبوت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سوال کے جواب سے پہلے ابتداءً ایک ضروری تمہیدذہن نشین فرمالیں:

     (الف)مرد غیر معذور کی امامت کروانے کا اہل ہر وہ مسلمان مردہے جو عاقل ،بالغ،صحیح القراءۃ ،شرعی اعذا ر مثلاً ریح وقطرہ وغیرہ کے امراض سے سلامت ہو،لہذا جس کے اندر یہ چھ شرائط پائی جائیں وہ بالغ مردوں کی امامت کروا نے کا اہل ہے۔

     نورالایضاح میں ہے:”شروط صحۃ الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء الاسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراءۃ والسلامۃ من الاعذار“صحیح مردوں کی امامت کے صحیح ہونے کی چھ شرطیں ہیں :اسلام،بلوغ ،عقل،مرد ہونا،قراءت کا صحیح ہونا اور اعذار سے سلامت ہونا۔

(نورالایضاح مع الطحطاوی،صفحہ287،مطبوعہ کراچی)

     اعلی ٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :پنجگانہ میں ہر شخص صحیح الایمان،صحیح القرأۃ،صحیح الطہارۃ،مردعاقل ،بالغ، غیرمعذور امامت کر سکتا ہے یعنی اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی اگرچہ بوجہ فسق وغیرہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو۔

(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ515،رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

     مزید تفصیل کے لیے بہارشریعت حصہ تین میں  سے امامت کے بیان کا مطالعہ فرمائیں ۔

     (ب)امامت کاسب سے زیادہ حقدارہونے میں آزاد،غلام سے بہترہے،متقی ،فاسق( غیرمعلن )سے ،انکھیارا،نابیناسے،صحیح النسب ،ولدالزناسے،اورغیراعرابی ،اعرابی (دیہاتی)سے اَولیٰ ہے(کمافی بدائع الصنائع،ج1،ص388)پھران میں سب سے زیادہ حقداروہ ہے ، جونمازوطہارت کے مسائل زیادہ جانتاہو،پھراگراس میں برابرہوں ، توجس کو تجوید(قراءت )کازیادہ علم ہواوراس کے موافق ادائیگی کرتاہو،اگراس میں بھی برابرہوں توزیادہ ورع یعنی شبہات سے بچنےوالا،پھرزیادہ عمروالایعنی جس کوزیادہ وقت اسلام میں گزراہو،پھرزیادہ اچھے اخلاق والا،پھرزیادہ وجاہت والا،پھرزیادہ خوبصورت،پھرزیادہ حسب والا،پھرنسب کے اعتبارسےزیادہ شریف ہو،پھرزیادہ مالدار،پھرزیادہ عزت والا،پھروہ جس کی آواز زیادہ خوبصورت ہو،پھروہ جس کے کپڑے زیادہ صاف وستھرےہوں

(بھارشریعت،ج1،ص567)

     پھرجس کی زوجہ زیادہ خوبصورت ہو،پھرجس کا سربقیہ اعضاء  جسم کی نسبت بڑاہو،(مراقی الفلاح،ج1ص144)،غرض چنداشخاص برابر کے ہوں، تو ان میں جو شرعی ترجیح رکھتا ہو زیادہ حق دار ہے اور اگر ترجیح نہ ہو، تو قرعہ ڈالا جائے، جس کے نام کا قرعہ نکلے وہ اِمامت کرے يا ان میں سے جماعت جس کو منتخب کرے ،وہ امام ہو اور جماعت میں اختلاف ہو، تو جس طرف زیادہ لوگ ہوں وہ امام ہو اور اگر جماعت نے غیر اولیٰ کو امام بنایا، تو بُرا کیا، مگر گنہگار نہ ہوئے۔

( بہارشریعت،ج1،ص567)

     امامت میں مقدم کون ہوگا ؟ اس حوالے سے صحيح مسلم  میں ہے:عن أبي مسعود الأنصاري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله، فإن كانوا في القراءة سواء، فأعلمهم بالسنة، فإن كانوا في السنة سواء، فأقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء، فأقدمهم سلما، ولا يؤمن الرجل الرجل في سلطانه، ولا يقعد في بيته على تكرمته إلا بإذنه» قال الأشج في روايته: مكان سلما سنایعنی :حضرت عبداللہ بن مسعود انصاری رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوم کی امامت وہ کرے جو کتاب اﷲ کا زیادہ قاری ہو  ،اگر قراءت میں سب برابر  ہوں،تو سنت کا زیادہ جاننے والا ، اگر سنت میں سب برابر ہوں، تو پہلے ہجرت والا، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو پہلے ایمان لانے والا، کوئی شخص کسی شخص کی ولایت کی جگہ امامت نہ کرے اور نہ اس کے گھر میں اس کے بغیر اجازت اعلیٰ مقام پر بیٹھےاوراشج کی روایت میں سلمایعنی اسلام میں مقدم کی جگہ”سنا“یعنی زیادہ عمروالامقدم ہوگاکے الفاظ ہیں ۔

(صحيح مسلم،جلد1،صفحہ465،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں ہے:”سب سے مقدم وہ ہے کہ نماز و طہارت کے مسائل کا علم زیادہ رکھتا ہو، پھر اگر اس علم میں دونوں برابر ہوں ،تو جس کی قراءت اچھی ہو ،پھر جو زیادہ پرہیزگار ہو ،شبہات سے زیادہ بچتا ہو ،پھر جو عمر میں بڑا ہو ،پھر جو خوش خلق ہو، پھر جو تہجد کا زیادہ پابند ہو،یہاں تک شرف نسب کا لحاظ نہیں ۔جب ان باتوں میں برابر ہوں تو اب شرافت نسب سے ترجیح ہے۔“

(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ501،رضافاؤنڈیشن ،لاهور)

     (ج)مسلمان مردوں کے لیے داڑھی ایک مشت(مٹھی،چارانگل) رکھنا واجب ہے۔ایک مشت داڑھی کا وجوب درج ذیل دلائل سے ثابت ہے ۔چنانچہ بخاری،مسلم،ابوداؤد،ترمذی ودیگر کتب احادیث میں ہے۔والنظم للاول عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مُٹھی میں لیتے اور جومٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے۔

(صحیح البخاری، کتاب اللباس،باب تقلیم الاظفار،جلد2،صفحہ398،مطبوعہ  لاھور)

     فتح القدیر، غنیۃ، بحرالرائق ، حاشیہ طحطاوی علی المراقی ، درمختار اور درر شرح غرر وغیرہ کتبِ فقہ میں ہے ۔والفظ للآخروأما الأخذ من اللحیۃ وھی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل مجوس الأعاجم والیھود والھنود وبعض أجناس الإفرنج“ترجمہ: بعض مغربی اور ہیجڑے لوگوں کی طرح داڑھی کاٹ کر ایک مٹھی سے کم کردینے کو کسی فقیہ نے بھی جائز نہیں کہا اور داڑھی مکمل کاٹ دینا عجمی مجوسیوں ، یہودیوں ،ہندوں اور بعض انگریزوں کا طریقہ ہے۔

( درر شرح غرر ، کتاب الصیام ،فصل حامل او مرضع خافت، ج1،ص208،داراحیاء الکتب العربیہ ،بیروت)

     شیخ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حلق کردن لحیہ حرام استوگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب ا ست وآنکہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک دین ست یا بجہت آنکہ ثبوت آن بسنت ست چنانچہ نماز عید راسنت گفتہ اند“ترجمہ: داڑھی منڈانا حرام ہے اور بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہاجاتا ہے، حالانکہ وہ واجب ہے۔

( اشعۃ اللمعات ،جلد 1صفحہ212،مکتبہ نوریہ رضویہ ،سکھر )

     مزید تفصیل کے لیے امام اہل سنت اعلی ٰحضرت علیہ رحمۃ رب العزت کے رسالہ ”لمعۃ الضحی فی اعفاء اللحٰی“ کا  مطالعہ فرمائیں ۔

     (د)جوشخص داڑھی منڈواتاہویاکٹوا کر ایک مٹھی سے کم کرتا ہو،وہ  فاسق معلن ہے۔امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں:”داڑھی منڈانا اور کترواکر حدِ شرع سے کم کرانا ،دونوں حرام وفسق ہیں اور اس کا فسق بالاعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے ۔“

(فتاوی رضویہ،جلد06،صفحہ505،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

     صدر الشریعہ،بدر الطریقہ، حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:”داڑھی کو کتر کرایک مشت سے کم کرنا ، نا جائز و حرام ہے۔۔اور جب یہ معصیت اور گناہ ہے تو چند بار کرنے سے کبیرہ و فسق ہو گا کہ اسرا ر علی الصغیرہ کبیرہ ہے اور اس کا بالاعلان ہوناخود ظاہر محتاج بیان نہیں۔“

(فتاوی امجدیہ، جلد 4، صفحہ76، مکتبہ رضویہ،کراچی)

     (ہ)فاسق معلن کوامام بناناگناہ ہےاورفاسق معلن کے پیچھے نماز پڑھنامکروہ تحریمی ہے اور اگر اس کے پیچھے نماز پڑھ لی ، تو اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔

     فاسق معلن کو امام بنانا گناہ ہے،اس کے متعلق  علامہ محمد ابراہیم بن حلبی (متوفی 956ھ) فرماتے ہیں:”لوقدموافاسقایاثمون،بناءعلی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم“ترجمہ:اگر لوگوں نے فاسق کو امام بنایا، تو وہ گناہ گار ہوں گے کیونکہ اس کو مقدم کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔

(غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی، جلد1،صفحہ442، کوئٹہ)

     علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃاللہ تعالی علیہ درمختار میں فرماتے ہیں:”کل صلاۃ ادیت مع کراھۃالتحریم تجباعادتھا“ترجمہ: ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی سے ادا کی جا ئے اس کا اعادہ واجب ہے۔

(درمختار،کتاب الصلوۃ ،جلد2،صفحہ182،مطبوعہ کوئٹہ )

     امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔“

(فتاویٰ رضویہ ،جلد6،صفحہ603،رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

     اب سوال کاجواب ملاحظہ فرمائیں:

     سب سے پہلے سوال میں مذکوریہ بات کہ احادیث میں  امامت کی چارشرائط ہیںاورفقہ حنفی میں اکیس شرائط ہیں ،یہ دونوں باتیں غلط اورجہالت پرمبنی ہیں،کیونکہ احادیث میں امامت کی چارشرائط نہیں، بلکہ امامت میں اولویت کس کوحاصل ہے،سب پرمقدم کون، اس کےبعدکون اہل ہے یہ بیان فرمایاگیا،اسی طرح فقہ حنفی میں امامت کی  اکیس شرائط نہیں، بلکہ مختلف کتب فقہ میں کم وبیش اکیس  اَولویت کےدرجے بیان کیے گئے ہیں۔

     فقہ حنفی میں مرد غیر معذور کی امامت کروانے کا اہل ہر وہ مسلمان مردہے جو عاقل ،بالغ،صحیح القراءۃ ،شرعی اعذا ر مثلاً ریح وقطرہ وغیرہ کے امراض سے سلامت ہو،لہذا جس کے اندر یہ چھ شرائط پائی جائیں وہ بالغ مردوں کی امامت کروا نے کا اہل ہے۔البتہ ان چھ شرائط کے ساتھ یہ امرانتہائی ضروری ہے کہ ان شرائط کاحامل شخص فاسق معلن یعنی اعلانیہ کبیرہ گناہ یاصغیرہ پراصرارکرنے والانہ ہوکہ فاسق معلن کوامام بناناگناہ ہے اوراس کے پیچھے نمازپڑھنامکروہ تحریمی ہے، یعنی  اگر اس کے پیچھے پڑھ لی ، تو اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔ اور گنہگار بھی ہوا ،توبہ بھی واجب ہے، اورشریعت مطہرہ کے قوانین کی روسے مسلمان مردوں کے لیے داڑھی ایک مشت(مٹھی،چارانگل) رکھنا واجب ہےاورداڑھی منڈانا یا کترواکر حدِ شرع سے کم کرانا ناجائزو حرام ہے ، لہٰذا جو شخص داڑھی منڈواتا ہو یا کٹوا کر ایک مٹھی سے کم کرتا ہو،وہ  فاسق معلن ہے۔لہذاان معنی میں امامت کے لیے داڑھی ہوناضروری ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم