Imam Se Pehle Salam Pher Kar Dobara Imam Ke Sath Salam Pherne Par Namaz Ka Hukum

امام سے پہلے سلام پھیر کر دوبارہ امام کے ساتھ سلام پھیرنے  پر نماز کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13255

تاریخ اجراء: 17رجب المرجب1445 ھ/29جنوری 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جماعت میں شروع سے شامل مقتدی اگر بھولے سے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی ایک طرف سلام پھیرے، پھر یاد آنے پر فوراً لوٹ آئے اور امام کے ساتھ سلام پھیر کر نماز مکمل کرے، تو اُس کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اُس مقتدی کی نماز درست ادا ہوئی ہے، اسے دہرانے کی کوئی حاجت نہیں ، نہ ہی مقتدی پر سجدہ سہو  لازم ہوا۔

   بیان کردہ حکم کی ایک نظیر یہ ہے کہ مسبوق مقتدی اگر بھولے سے امام سے پہلے ہی سلام پھیرلے تو اس صورت میں اُس مسبوق مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی ہے  اور نہ ہی اُس پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے کہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے وہ مقتدی ہے، اُس سے  یہ غلطی حالتِ اقتداء میں واقع ہوئی ہےاور مقتدی کا سہو معتبر نہیں ۔

   بالفرض اگر مقتدی پوچھی گئی صورت میں قصداً  امام سے پہلے ہی سلام پھیر کر نماز مکمل کرلیتا تو اُس مقتدی کی نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی کہ مقتدی پر تمام فرائض و واجبات میں امام کی اتباع و پیروی واجب  ہے اور بلا ضرورتِ شرعیہ اس واجب کا ترک  مکروہِ تحریمی ،ناجائز و گناہ ہے۔  اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں مقتدی نے سہواً امام سے پہلے سلام پھیرا لیکن پھر نماز میں لوٹ کر امام کی اتباع میں بھی سلام پھیر کر اپنی اُس نماز کو مکمل کیا تو یہاں امام کی متابعت پائی جانے کی وجہ سے اُس مقتدی کی نماز بغیر کسی کراہت کے درست ادا ہوئی ہے۔

   فرائض و واجبات میں بغیر تاخیر کے امام کی اتباع واجب ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی شامی، غنیۃ المستملی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ ان متابعۃ الامام فی الفرائض والواجبات من غیر تاخیر واجبۃ“یعنی فرائض و واجبات میں بلا تاخیر امام کی متابعت واجب ہے۔ (ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 202، مطبوعہ کوئٹہ)

   سلام میں بھی امام کی متابعت ضروری ہے۔ جیساکہ ردالمحتارمیں متابعت کی ایک قسم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ’’ان یقارن احرامہ لاحرام امامہ ورکوعہ لرکوعہ وسلامہ لسلامہ  یعنی متابعت کی ایک قسم یہ ہے کہ مقتدی کی تحریمہ، رکوع ،سلام، امام کی تحریمہ ،رکوع اور سلام سے ملے  ہوئے ہوں ۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 204، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جو چیزیں فرض و واجب ہیں مقتدی پر واجب ہے کہ امام کے ساتھ انھیں ادا کرے ۔(بہارِ شریعت، ج01،ص 519،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مسبوق مقتدی بھولے سے امام سے پہلے سلام پھیرلے تو اس کی نماز نہ تو فاسد ہوگی اور نہ ہی اُس پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔ جیسا کہ فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور  ہے: ”و ان سلم معہ او قبلہ لا یلزمہ؛ لانہ مقتد فی ھاتین الحالتین ح۔ “ یعنی  اگر مسبوق مقتدی امام کے ساتھ یا اُس سے پہلے سلام پھیرلے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا کہ وہ ان دونوں حالتوں میں مقتدی ہے، جیسا کہ علامہ حلبی علیہ الرحمہ نے اسے ذکر فرمایا ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 422، مطبوعہ کوئٹہ)

   بحر الرائق میں ہے:لو سلم مع الامام ساهيا أو قبله لا يلزمه سجود السهو لانه مقتد۔ “ یعنی  اگر مسبوق مقتدی امام کے ساتھ یا امام سے پہلے سلام پھیردے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا کہ وہ مقتدی ہے۔(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 401، دار الكتاب الإسلامي)

   مقتدی کے سہو کا اعتبار نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ  میں ہے:’’سہومقتدی اصلاً معتبروملحوظ ہی نہیں ۔“(فتاوٰی رضویہ ،ج08،ص207،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   مقتدی امام سے پہلے کوئی فعل ادا کرے پھر امام کی مشارکت میں بھی وہ فعل ادا کرلے تو اُس کی نماز درست ادا ہوجائے گی۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ  متابعت کی اقسام اوراس کے احکام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’متابعت امام جومقتدی پرفرض میں فرض ہے تین صورتوں کوشامل ۔۔۔۔۔۔تیسرے یہ کہ اس کافعل ،فعل امام سے پہلے واقع ہومگرامام اسی فعل میں اس سے آملے مثلااس نے رکوع امام سے پہلے (بلا عذرِشرعی)رکوع کردیالیکن یہ ابھی رکوع ہی میں تھاکہ امام رکوع میں آگیااوردونوں کی شرکت ہوگئی یہ صورت اگرچہ سخت ناجائزوممنوع ہے اور حدیث میں اس پروعید شدید وارد ، مگرنماز ، یوں بھی صحیح ہوجائے گی جبکہ امام سے مشارکت ہولے ۔“(فتاوٰی رضویہ ،ج07،ص 275-274،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم