Imam Sahib Ne Bhole Se Surah Falaq ki Teesri Ayat Chordi Tu Namaz Ka Hukum

امام صاحب نے بھولے سے سورۃ الفلق کی تیسری آیت چھوڑدی، نماز کا کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12990

تاریخ اجراء: 26صفر المظفر1445 ھ/13ستمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام صاحب نے دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورہ الفلق پڑھی۔ ابتدائی دو آیات پڑھنے کے بعد امام صاحب نے تیسری آیت " وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ(۳)" کو بھولے سے چھوڑ دیا پھر اگلی دو آیات "وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ(۴)وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)" پڑھ کر سورت مکمل کی۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں نماز ہو گئی؟ یا پھر سجدہ سہو کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں امام صاحب سے جو غلطی ہوئی اس سے معنیٰ فاسد نہیں ہوئے، نیز امام صاحب نے چونکہ واجب مقدار میں قراءت بھی کرلی تھی، لہذا اس صورت میں امام صاحب کی نماز درست ادا ہوئی ہے،  اسے دہرانے کی حاجت نہیں۔

   البتہ یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ نماز میں سجدہ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے جب نمازی بھولے سے کسی واجب کو ترک کردے، جبکہ یہاں   امام صاحب نے کوئی واجب ترک نہیں کیا کہ اُن پر سجدہ سہو واجب ہوتا۔

   آیت کے کسی کلمے کو چھوڑنے کی صورت میں اگر معنیٰ فاسد نہ ہوتے ہوں تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے :”و ان ترک کلمۃ من آیۃ ان لم یتغیر المعنی کما لو قرأ"وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا"و ترک"ذَا"لا تفسد صلاتہ لانہ یفہم بہ ما یفھم بدون الترک۔۔۔و ان ترک آیۃ من سورۃ وقد قرأ مقدار ما تجوز بہ الصلاۃ جازت صلاتہیعنی نمازی نے اگر آیت کےکسی  کلمہ کو چھوڑدیا تو اگر معنیٰ فاسد نہ ہوئے جیسے نمازی نے یہ آیتِ مبارکہ"وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا"پڑھی اور اس میں سے لفظ"ذَا"کو چھوڑدیا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ اس لفظ کو ترک کرنے سے بھی آیت کا وہی  معنی بنتا ہے جو معنی  بغیر ترک کے بن رہا تھا۔۔۔اور اگر نمازی نے سورت کی کوئی آیت چھوڑدی جبکہ  وہ ما یجوز بہ الصلوٰۃ قراءت کرچکا تھا تو اس کی نماز درست ہوگی۔(فتاوٰی  قاضی خان ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 140-139، مطبوعہ کراچی، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” اس (قراء ت میں غلطی ہو جانے کے) باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے، نماز فاسد ہوگئی، ورنہ نہیں۔“(بہار شریعت ، ج 01، ص 554، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ"فتاوٰی رضویہ"میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”(سورۃ فاتحہ) میں مطلقاً کسی لفظ کے ترک سے سجدہ سہوواجب ہوگا جبکہ سہواً ہو ورنہ اعادہ۔اور  (اس کے علاوہ)اور کسی سورت سے اگر لفظ یا الفاظ متروک ہوئے اور معنی فاسد نہ ہوئے اور تین آیت کی قدر پڑھ لیاگیا تو اس چھوٹ جانے میں کچھ حرج نہیں۔(فتاوٰی رضویہ، ج06، ص355، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   صدر الشریعہ  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”زید نماز پڑھا رہا تھا سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ یسین شروع کردیا اور"وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ"پڑھ کر"فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ"چھوڑدی اور"اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى" شروع کردیا اور سجدہ سہو کیا،  نہ نماز دہرائی۔ تو کیا اس صورت میں نماز درست ادا ہوئی یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”نماز صحیح ہے اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہ تھا۔(فتاوٰی  امجدیہ، ج01، ص 283-282، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم