Imam Ne Farz Ki Tesri Rakat Me Buland Awaz Se Tauz O Tasmia Parh Liya

امام صاحب کا فرض کی تیسری رکعت میں بلند آواز سے تعوذ و تسمیہ پڑھنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12119

تاریخ اجراء: 18رمضان المبارک1443 ھ/20اپریل 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام صاحب نے فرض کی تیسری رکعت میں بلند آواز سے تعوذ و تسمیہ پڑھ لیا، تو کیا اس صورت میں سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں امام صاحب پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ نماز میں تعوذ و تسمیہ آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے اور سنت کے ترک پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔پوچھی گئی صورت میں تیسری رکعت کی ابتداء میں تعوذ پڑھنے کا خاص موقع تو نہیں تھا لیکن یہ محل ثنا ء کا ضرور ہے جس کی بنا پر تعوذ پڑھنے پر بھی کوئی قابل گرفت حکم نہیں ہوگا۔ نیز فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر نمازی فرضوں کی آخری دو رکعتوں میں یا پھر مغرب کی تیسری رکعت میں تشہد پڑھ لے تو مطلقاً اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا کہ ان رکعات میں نمازی کو تسبیح پڑھنے،خاموش رہنے اور قراءت کا اختیار ہے۔ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں امام سے کسی ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں ہوا کہ جس کی بنا پر اس پر سجدہ سہو واجب ہوجائے۔

تفصیلی جزئیات درج ذیل ہیں:

   تعوذ و تسمیہ آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :”( سننها ) رفع اليدين للتحريمة ، ونشر أصابعه ، وجهر الإمام بالتكبير ، والثناء ، والتعوذ ، والتسمية ، والتأمين سرایعنی نمازی کا تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھوں کو اٹھانا، اپنی انگلیوں کو کشادہ رکھنا، امام کا بلند آواز سے تکبیرکہنا، ثناء، تعوذ، تسمیہ اور آمین آہستہ آواز سے کہنا نماز کی سنتوں میں سے ہے ۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصوم،ج 01، ص 207، مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ثنا و تعوذ و تسمیہ و آمین کہنا اور ان سب کا آہستہ ہونا (سننِ نماز میں سے ہے)۔ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 523-522، مکتبۃ المدینہ،کراچی، ملخصاً)

   سنن و مستحبات کے ترک پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:”سنن و مستحبات مثلاً تعوذ، تسمیہ، ثنا، آمین، تکبیراتِ انتقالات، تسبیحات کے ترک سے بھی سجدۂ سہو نہیں بلکہ نماز ہو گئی۔ (بہارشریعت ،ج01،ص709، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فرضوں کی آخری رکعات میں تشہد پڑھنے کے حوالے سے فتاوی عالمگیری میں مذکور ہے:”ولو تشھد فی الاخریین لایلزمہ السھو“یعنی فرضوں کی دوسری دو رکعتوں میں تشہد پڑھنے کی صورت میں مطلقاً سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الصلوٰۃ، ج01،ص127،مطبوعہ پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے جد الممتار میں فرماتے ہیں :”ان تشھد فی قیام الاخریین من مکتوبۃ رباعیۃ او ثالثۃ المغرب لا سھو علیہ مطلقاً لانہ مخیر بین التسبیح والسکوت والقراءۃ وھذا من التسبیح“یعنی اگر چار رکعتی فرضوں کی دوسری دو رکعتوں میں یا مغرب کی تیسری رکعت میں التحیات پڑھ لی،تو مطلقاً سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا،کیونکہ نمازی کو ان رکعات میں کوئی بھی تسبیح کے کلمات پڑھنے،خاموش رہنے اور قراءت کا اختیار ہے اور یہ(تشہد)بھی تسبیح ہے۔(جدالممتار،ج03،ص527،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم