Imam Ki Ijazat Ke Bagair Mukabbir Banne Ka Hukum

 

امام کی اجازت کے بغیر مکبر بننے کا حکم

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3302

تاریخ اجراء: 25جمادی الاولیٰ 1446ھ/28نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جمعہ و عیدین میں اگر لاؤڈ اسپیکر نہ ہو اور کوئی مقتدی امام کی اجازت کے بغیر ہی مکبر بن گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مکبر بننے کے لیے امام کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ  اگرمقتدیوں کو لگے کہ امام کی تکبیرات  کی آواز تمام مقتدیوں کو نہیں پہنچ رہی، تو کوئی بھی مکبر بن سکتا ہے تاکہ امام کا حال سب کو معلوم ہو جائے ۔ لیکن اگر امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچ جائے، تو بلا ضرورت مکبر بننا مکروہ و بدعت ہے، لیکن اس صورت میں بھی مکبر کی  نماز فاسد نہیں ہو گی۔ مگر یہ بات واضح رہے کہ مکبر وہی بن سکتا ہے جو صحیح قراءت جانتا ہو، نیز اس درست نیت سے تکبیرات پڑھے کہ "اپنی تکبیر کہتا ہوں اور حاجت کی وجہ سے آواز بلند کرتا ہوں"۔ لوگوں کو اچھا لگانے کے لیے بناوٹ اور سرُ کے ساتھ تکبیرات بلند آواز سے کہنے کی اجازت نہیں۔

   ردالمحتار میں ہے:”واعلم أن التبليغ عند عدم الحاجة إليه بأن بلغهم صوت الإمام مكروه. وفي السيرة الحلبية: اتفق الأئمة الأربعة على أن التبليغ حينئذ بدعة منكرة أي مكروهة وأما عند الاحتياج إليه فمستحب وما نقل عن الطحاوي: إذا بلغ القوم صوت الإمام فبلغ المؤذن فسدت صلاته لعدم الاحتياج إليه فلا وجه له إذ غايته أنه رفع صوته بما هو ذكر بصيغته. وقال الحموي: وأظن أن هذا النقل مكذوب على الطحاوي فإنه مخالف للقواعد․“ ترجمہ: ان لو کہ جب امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچانے کی حاجت نہ ہو بایں صورت کہ مقتدیوں تک امام کی آواز خود ہی پہنچ جائے تو اس وقت (کسی مقتدی کا مکبر بن کر)امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچانا مکروہ ہے ،اور سیرت حلبیہ میں ہے کہ ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں مکبر کا ، امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچانا بُری بدعت یعنی مکروہ ہے اور جب حاجت ہو تو مستحب ہے اور وہ جو امام طحاوی سے منقول ہے کہ جب امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچ جائے ،پھر بھی کوئی مقتدی مکبر بن کر امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچائے تواس کی حاجت نہ ہونے کے سبب اس مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی ،اس منقول مسئلے کی درستی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوا کہ اس مقتدی نے تکبیر کے جو صیغے کہنے تھے وہ اس نے بلند آواز میں کہہ دئے ،اور حموی نے فرمایا:میں گمان کرتا ہوں کہ مذکورہ منقول مسئلہ امام طحاوی پر جھوٹ باندھا گیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ ،قواعد کے مخالف ہے۔( رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،جلد 2،صفحہ 210،کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے: ” اگر امام کی تکبیر کی  آواز تمام مقتدیوں کو نہیں پہنچتی ،تو بہتر ہے کہ کوئی مقتدی بھی بلند آواز سے تکبیر کہے کہ نماز شروع ہونے اور انتقالات کا حال سب کو معلوم ہو جائے؛ اور بلا ضرورت مکروہ و بدعت ہے۔ “ (بہار شریعت ،جلد1 ،حصہ 3،صفحہ 521 ،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم