Imam Ke Sath Aik Rakat Mili To Baqi Teen Rakatain Kese Parhen?

امام کے ساتھ ایک رکعت ملی ، تو باقی تین رکعتیں کیسے پڑھے ؟

مجیب:مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7340

تاریخ اجراء:03ذو القعدۃ الحرام 1442ھ/14جون2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں  کہ جس شخص کو چار رکعت والی نماز میں ایک رکعت ملی اور بقیہ تین رکعتیں نکل گئیں ،تو وہ امام کےسلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز کس طرح ادا کرے؟کیا وہ تینوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کےساتھ سورت ملا کر پڑھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو شخص جماعت کےساتھ چار رکعت والی نماز میں آخری   رکعت میں شامل ہوا،توامام کےسلام پھیرنے کےبعد کھڑا ہوکر پہلی رکعت میں ثنا،تعوّذ و تسمیہ پڑھے اورسورۂ فاتحہ یعنی اَلْحَمْد شریف  کے ساتھ سورت ملائے ،پھررکوع و سجودکےبعد قعدہ کرے اور اس  میں تشہد پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور اس  دوسری رکعت میں بھی اَلْحَمْد شریف  کے ساتھ سورت ملائے اور اس میں قعدہ کیے بغیر کھڑاہوجائے اور پھر ایک رکعت  مزید پڑھے،اس میں صرف اَلْحَمْد شریف   پڑھے اور رکوع و سجود کے بعد  تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے۔یہ طریقہ زیادہ راجح قول کے مطابق ہے ،ورنہ ایک اور طریقہ بھی ہے جو نیچے جزئیات میں مذکور ہے۔

   اس کی تفصیل کچھ یوں  ہے:

   مسبوق(جس کی امام کے ساتھ ایک یا چند رکعتیں رہ گئیں) کےبقیہ رکعتوں کو  ادا کرنے کے متعلق  اصول  یہ ہےکہ  یہ امام کےسلام پھیرنے کے بعدبقیہ رکعتیں ادا کرتے وقت قراءت کے حق میں پہلی اور تشہد کے حق میں دوسری رکعت پڑھے گا ،لہٰذا اس  صورت  میں پہلی رکعت کی طرح ثنا،تعوّذ وتسمیہ اور فاتحہ کے بعد سورت بھی ملائےاوریہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ چکا ہے ، لہٰذا تشہد کے اعتبار سے یہ اس کی دوسری رکعت ہوگی،اس لیے قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھنے کا حکم ہے،اس کےبعد کھڑاہوگا،تو قراءت کےاعتبار سے یہ اس کی دوسری رکعت ہوگی، لہٰذا اس میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم ہےاور تشہد کے اعتبار سے یہ اس کی تیسری رکعت ہوگی،اس لیےقعدہ میں نہیں بیٹھے گااورآخری رکعت میں قیام کےلیے کھڑا ہوگا، توقراءت کےاعتبار سےیہ اس کی تیسری رکعت ہوگی، لہٰذا اس میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھ کر رکوع میں چلا جائےگا۔

   البتہ اگر مسبوق امام کے بعد والی رکعت میں قعدہ نہ کرے، بلکہ سلام کے بعد دورکعت پڑھنے کے بعد قعدہ کرے،تو اس طرح بھی  نماز ہوجائےگی کہ ایک اعتبار سے یہ پہلی رکعت ہےاور پہلی رکعت میں قعدہ نہیں ہوتا،لیکن بہتر طریقہ وہی ہےجو اوپر بیان ہوا یعنی سلام کے بعد پہلی رکعت مکمل کرکے قعدۂ اولیٰ کرے۔

   ایک رکعت  پانے والے مسبوق کے بقیہ نماز اداکرنے کے طریقہ کےمتعلق مصنّف عبد الرزاق میں   ہے: ’’عن الشعبي، أن جندبا، ومسروقا،أدركا ركعة من المغرب فقرأ جندب، ولم يقرأ مسروق خلف الامام، فلما سلم الامام قاما يقضيان، فجلس مسروق في الثانية والثالثة، وقام جندب في الثانية فلم يجلس، فلما انصرفا تذاكرا ذلك فأتيا ابن مسعود فقال:كل قد أصاب  أو قال: كل قد أحسن ونفعل كما فعل مسروق ‘‘ ترجمہ:امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت جندب اور امام مسروق علیہما الرحمۃ نے مغرب کی ایک رکعت (امام کےساتھ) پائی،توحضرت جندب نے قراءت کی اورامام مسروق نے امام کےپیچھے قراءت نہیں کی ،پھر جب امام نے سلام پھیرا،تو دونوں نے بقیہ رکعتیں  ادا کیں ،تو امام مسروق دوسری اور تیسری رکعت میں بیٹھے اور حضرت جندب دوسری رکعت میں قعدہ کیے بغیر  کھڑے ہوئے ،پھر جب دونوں اس معاملہ پر بات  کرتے ہوئے  واپس پلٹے اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے ،تو آپ رضی اللہ عنہ نے(قعدہ کرنے کےمتعلق) ارشاد فرمایا : دونوں نے درست کیا یا فرمایا اچھا کیا اور (فرمایا)ہم اسی طرح کرتے ہیں جیسے مسروق نے کیا۔(مصنف عبد الرزاق ،باب مایقرأ فيما يقضی ،جلد2،صفحه 148،مطبوعه دار الكتب العلميه ،بيروت )

   اور بدائع الصنائع ، حلبی کبیر ،فتاوی عالمگیری،ردالمحتار وغیرہ کتبِ فقہ میں ہے واللفظ للاوّل:’’ولو أدرك مع الامام ركعة فی ذوات الأربع فقام إلى القضاء، قضى ركعة يقرأ فيها بفاتحة الكتاب وسورة ويتشهد ثم يقوم فيقضي ركعة أخرى يقرأ فيها بفاتحة الكتاب وسورة‘‘ترجمہ:اوراگر کسی نے چار رکعت والی نماز میں امام کے ساتھ ایک رکعت پائی،تو جب بقیہ رکعات پڑھنے کےلیےکھڑاہو ، توایک رکعت یوں ادا کرے  کہ اس میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے اور تشہد پڑھے پھر کھڑا  ہو اور دوسری رکعت ادا کرے اور اس  میں بھی سورۂ فاتحہ اور سورت  پڑھے ۔(بدائع الصنائع ،کتاب الصلاۃ،فصل فی حکم فساد ھذہ الصلوات ،جلد2،صفحہ 165،مطبوعہ کوئٹہ)

   مسبوق کے بقیہ رکعتیں ادا کرنے کے اصول کے متعلق تنویرالابصار و درمختارمیں ہے:’’(والمسبوق من سبقہ الامام  بھا أو ببعضھا وھو منفردفیما یقضیہ) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ … ویقضی  اول صلاتہ  فی حق  قراءۃ و آخرھا فی حق  تشھد،  فمدرک رکعۃ من غیر  فجر یاتی  برکعتین بفاتحۃ  وسورۃ  وتشھد بینھما ،وبرابعۃ الرباعی  بفاتحۃ  فقط ولایقعد قبلھا ‘‘ترجمہ: اور مسبو ق کہ جس  کی  امام کےساتھ   تمام یا بعض رکعتیں  رہ جائیں وہ اپنی بقیہ رکعتیں ادا کرنے میں منفرد ہے،حتی کہ وہ ثنا اورتعوّذ پڑھے گا اور قراءت بھی کرے گا … اورمسبوق قراءت کے حق میں پہلی رکعت اور تشہد کے حق میں دوسری رکعت پڑھے گا ، لہٰذا فجر کے علاوہ کی  نمازوں میں ایک رکعت  پانے والا،دورکعتوں کو سورۂ  فاتحہ اور سورت کے ساتھ ادا کرے  اوران کے درمیان تشہد  بھی  پڑھے اور چار  رکعت  والی نماز کی چوتھی رکعت میں صرف سورۂ  فاتحہ پڑھے او راس سے پہلے قعدہ نہ کرے۔

   ایک رکعت پانے والا مسبوق اگر اپنی دوسری رکعت کے بعدقعدہ کرے،تب بھی نماز ہو جانے کے متعلق درمختار کی عبارت  (وتشھد بینھما) کےتحت ردالمحتار میں ہے:’’ قال فی شرح المنیۃ:ولو لم یقعد  جاز استحسانا لا قیاسا و لم یلزمہ سجودالسھو لکون  الرکعۃ  اولی  من وجہ  ‘‘ترجمہ:شرح منیہ میں فرمایا  کہ اگر وہ ان دورکعتوں کے درمیان نہ بیٹھے،تو بھی استحساناً ،جائز ہے، قیاساً (جائز) نہیں اور اس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا ، کیونکہ ایک اعتبار سے یہ اس کی پہلی رکعت ہی ہے۔(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ ،جلد2،صفحہ 417 ،418،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’قولِ ارجح میں اُسے (مسبوق کو)یہی چاہیے کہ سلامِ امام کے بعد ایک ہی رکعت پڑھ کر قعدہ اولیٰ  کرے ،پھر دوسری بلا قعدہ پڑھ کر تیسری پر قعدہ اخیرہ کرے ۔۔۔مگراس کا عکس بھی کیا کہ دو2پڑھ کر بیٹھا پہلی پر قعدہ نہ کیا، پھر تیسری پر قعدہ اخیرہ کیا، تو یوں بھی نماز جائز ہوگی ،سجدہ سہو لازم نہ آئے گا۔۔۔۔اقول :(میں کہتا ہوں) یہ فیصلہ بعینہا فتویٰ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے۔ ‘‘(فتاوی رضویہ ،باب الامامۃ ،جلد6 ،صفحہ380،381،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم