Imam Ke Salam Pherte Waqt Muqtadi Ne Takbeer e Tahreema Kahi To Namaz Ka Hukum

امام کے سلام پھیرتے وقت مقتدی نے تکبیرِ تحریمہ کہی تو نماز کا کیا حکم ہوگا ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13022

تاریخ اجراء:        18ربیع الاول1445 ھ/05اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ امام صاحب کے نماز ختم کرنے کے لیے پہلا سلام پھیرتے وقت زید نے تکبیرِ تحریمہ کہہ لی اور ہاتھ باندھ لیے ،اسی اثناء میں امام صاحب نے دوسرا سلام بھی پھیردیا، تو اس صورت میں زید نماز میں شامل ہوا کہ نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید امام صاحب کے پہلا سلام پھیرتے وقت شریکِ جماعت ہوا جس کی وجہ سے زید نماز کے کسی بھی جز ء میں امام کے ساتھ شریک نہ ہوسکا، کیونکہ جس پر سجدہ سہو واجب نہ ہو اُس کا سلام حرمتِ نماز کو یقینی طور پر ختم کرنے والا ہوتا ہے ۔ جبکہ نماز کا پہلا سلام پھیرتے ہی امام نماز سے باہر ہوگیا تھا اور زید اس وقت شریکِ جماعت ہوا کہ جب امام نماز سے ہی باہر ہوچکا تھا، لہذا صورتِ مسئولہ میں زید  چونکہ شریکِ جماعت ہی نہیں ہوا،  اب اس پر  لازم ہے کہ دوبارہ نئے سرے سے تکبیرِ تحریمہ کہہ کر  نئے سرے سے اپنی  نماز ادا کرے۔ 

   دوسری چیز یہاں قابلِ توجہ یہ ہے کہ بالفرض یہ مقتدی امام کے پہلے سلام سے پہلے پہلے نیت کر لیتا، لیکن  امام کے سلام پھیرنے کی وجہ سے یہ جا کر امام سے قعدہ میں نہ مل پاتا تب بھی اس کی اقتداء درست نہیں تھی  کیوں کہ  اقتداء درست ہونے کے لئے نماز کے کسی بھی جزء میں امام کے ساتھ شرکت ضروری ہے یعنی جو افعال نماز میں ادا کیے جاتے ہیں مقتدی وہ افعالِ  نماز امام کے ساتھ ادا کرے، جیسے نماز کے بالکل آخر میں آنے والا شخص قعدہ اخیرہ میں امام کے ساتھ شریک ہوجائے تو قعدہ اخیرہ میں  امام کے ساتھ شرکت کرلینے سے اُس نمازی کی اقتداء درست ہوجائے گی، لیکن اگر کوئی شخص قعدہ اخیرہ میں بھی امام کے ساتھ شریک نہ ہوسکے تو اب اُس کی اقتداء اصلاً درست نہ ہوگی۔

   اقتداء کے لئے  جزء نماز میں امام کے ساتھ شریک ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:”انھا  اتباع الامام فی جزء من صلاتہ“یعنی اقتداء نماز کے کسی جزء میں امام کی پیروی کرنے کا نام ہے۔( رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 337، مطبوعہ  کوئٹہ)

   بنایہ شرح ہدایہ  میں ہے:ان الشرط ھو المشارکۃ فی افعال الصلوۃ لان الاقتداء شرکۃ ولا شرکۃ فی الاحرام وانما الشرکۃ فی الفعلیعنی اقتدا کی شرط ، نماز کے افعال میں شریک ہونا ہے کیونکہ اقتدا کا معنی ہی شرکت کرنا ہے ۔  تکبیر تحریمہ کہنے میں کوئی شرکت مقصود نہیں بلکہ  شرکت تو افعال نماز میں ہوتی ہے۔(البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الصلاۃ ، باب ادراک الفریضۃ ، ج02، ص578، مطبوعہ بیروت)

   جس پر سجدہ سہو واجب نہ ہو،  اُس کا سلام حرمتِ نماز کو یقینی طور پر ختم کرنے والا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بدائع الصنائع  میں ہے:الأصل أن السلام العمد يوجب الخروج عن الصلاة إلا سلام من عليه السهو ، وسلام السهو لا يوجب الخروج عن الصلاة ؛ لأن السلام محلل في الشرع ، قال النبي صلى الله عليه وسلم : { وتحليلها التسليم ، } ولأنه كلام ، والكلام مضاد للصلاة ، إلا أن الشرع منعه عن العمل حالة السهو ضرورة دفع الحرج ؛ لأن الإنسان قلما يسلم عن النسيان ، وفي حق من عليه سهو ضرورة تمكنه من سجود السهو ، ولا ضرورة في غير حالة السهو في حق من لا سهو عليه فوجب اعتباره محللا منافيا للصلاةیعنی اصل یہ ہے کہ قصداً سلام  پھیرنا نماز سے  باہر کر دیتا ہے مگر اس شخص کا سلام پھیرنا  جس پر سجدہ سہو لازم ہوکہ بھول کر سلام پھیرنا  نماز سے خارج  نہیں کرتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلام  پھیرنا نماز کی پابندی ختم کرکے حلال کرنے والاعمل ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم  نے فرمایا (نماز کے سبب حرام اشیاء کو ) حلال کرنے والی چیز سلام پھیرنا ہے ۔ یہ بھی وجہ ہے کہ سلام پھیرنا کلام ہے اور  کلام نماز توڑنے والا  کام  ہے، مگر یہ کہ شریعت نے بھول  کی حالت میں حرج دور کرنے کے لیے ضرورتاً اسے عمل کرنے سے روک دیا  کیونکہ انسان بھولتا رہتا ہے ۔جس پر سجدہ سہو کرنا باقی ہے اس کو سجدہ کرنے پر قدرت دینا ضرورت ہے اور جس پر سجدہ سہو باقی نہ ہوں ، اس کے حق میں کوئی  ضرورت نہیں تو جان بوجھ کر پھیرا جانے والا سلام محلل اور منافی نماز شمار ہوگا ۔(بدائع الصنائع،  کتاب الصلاۃ ، ج01، ص168، دار الكتب العلميہ، بیروت)

   بحر الرائق  میں ہے:سلام من عليه السهو لا يخرجه عن حرمة الصلاة لا يستلزم وقوعه قاطعا وإلا لم يعد إلى حرمتها بل الحاصل من هذا أنه إذا وقع في محله كان محللا مخرجا وبعد ذلك فإن لم يكن عليه شيء مما يجب وقوعه في حرمة الصلاة كان قاطعا مع ذلكیعنی جس پر سجدہ سہو باقی ہو،  اس کا  سلام پھیردینا اسے حرمتِ نماز سے خارج نہیں کرتا،یہ مسئلہ اس بات کو مستلزم نہیں کہ سلام پھیر دینا منافی نماز ہے ورنہ نمازی حرمت نماز کی طرف لوٹ آتا بلکہ اس کا  حاصل یہ ہے کہ جب سلام اپنے محل میں واقع ہو تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد والی پابندیوں کو ختم کرنے والا اور نماز سے خارج کرنے والا ہوگا ۔ پھر اس کے بعد اگر اس پر نماز کے افعال میں سےایسی  کوئی چیز باقی نہ رہے کہ جس کا وقوع حرمتِ نماز میں ضروری ہو تو وہی سلام قطعی طور پر نماز کو ختم کرنے والا ہوگا۔(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، ج02، ص116، دار الكتاب الإسلامي)

   مقتدی کے بیٹھنے سے پہلے امام نے سلام پھیر دیا تو جماعت نہ ملی۔ جیسا کہ فتاوی امجدیہ میں ہے:”بیٹھنے سے قبل سلام پھیر دیا تو شاملِ جماعت نہ ہوا۔(فتاوٰی امجدیہ ،ج01،ص175، مکتبہ رضویہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم