Kya Imam Ka Iqamat Ke Waqt Musalle Par Mujood Hona Zarori Hai?

کیا امام کا اقامت کے وقت مصلے پر موجود ہونا ضروری ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Faj 5293

تاریخ اجراء:28جمادی الثانی1440ھ/06مارچ2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ کیا اقامت کے وقت امام کا مصلیٰ پر ہونا ضروری ہے؟اگر کوئی امام صاحب  مسجد میں ہوتے ہوئے بھی مصلیٰ پرنہ بیٹھیں، بلکہ جب مؤذن اقامت کہتے ہوئے"قد قامت الصلوٰۃ "تک پہنچے اس وقت امام صاحب مصلیٰ پر آئیں ، تو ان کا ایسا کرنا شرعاًکیسا ہے؟رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں امام صاحب پر شرعاً کوئی الزام نہیں ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ  اقامت کے وقت مصلے پر تشریف فرما نہیں ہوتے تھےچنانچہ ایک موقع پر فرمایا کہ اگر اقامت کھڑی ہو جائے تو جب تک مجھے آتا نہ دیکھ لو اس وقت تک نماز کے لیے  کھڑے نہ ہو، لہٰذا معلوم ہوا کہ اقامت کے وقت امام کا مصلیٰ پر ہونا ضروری نہیں۔

    البتہ امام کو چاہیے کہ اقامت کے بعد جائے نماز پر آنے میں اتنی تاخیر نہ کرےجس سے نمازیوں کو تشویش ہو اور وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنا شروع کردیں اور مؤذن نماز پڑھانے کی تیاری شروع کر دے بعد میں آواز آئے کہ ٹھہرو امام صاحب آرہے ہیں ، کبھی کبھار اور عذر ہو تو ایسا ہونا سمجھ میں آتا ہے ، لیکن مستقل نمازیوں کو تشویش میں مبتلا کرنا درست عمل نہیں ، لہٰذا امام  حی علی الفلاح کے وقت مصلے پر پہنچ جائے ، اس کا التزام کیا جائے خاص مصلی پر اس کا موجود ہونا ضروری نہیں ۔

صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقوموا حتیٰ ترونی “ یعنی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو تم اس وقت تک مت کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لو۔

(صحیح البخاری ،جلد 1، صفحہ88،مطبوعہ کراچی )

    بدائع الصنائع میں ہے:”فان كان خارج المسجد لا يقومون ما لم يحضر لقول النبي صلى الله عليه وسلم: لا تقوموا في الصف حتى تروني خرجت “یعنی اگر امام خارجِ مسجد ہو تو مقتدی اس وقت تک نہ کھڑے ہوں جب تک امام حاضر نہ ہوجائے سرکار صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ "جب تک مجھے آتا نہ دیکھ لو اس وقت تک نماز کے لئے  صف میں کھڑے نہ ہو ۔ "

(بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 31، مطبوعہ دار الحدیث قاهرۃ)

    مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ” امام مصلیٰ پر نہیں ہے، مسجد کے صحن میں کھڑا یا بیٹھا ہے یا بیرونِ مسجد حجرہ میں ہے اور مکبر نے اقامت شروع کردی، یہ جائز ہے یا نہیں؟ “آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”تکبیر شروع کردینا جائز ہے اور یہی طریقہ زمانہ رسالت میں تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و الہ و سلم حجرہ میں ہوتے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ تکبیر کہہ دیا کرتے تھے، بوقتِ تکبیر امام کا مصلیٰ پر ہونا نہ واجب نہ سنت نہ  مستحب مصلی ٰپر ہو یا نہ ہو دونوں برابر۔“

(فتاویٰ امجدیہ، جلد1، صفحہ 67، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

    فتاویٰ اجملیہ میں ہے:”بوقت تکبیر امام کا مصلے پر ہونا ضروری نہیں ہےیہاں تک کہ اگر امام بعد تکبیر آیا تو اس تکبیر کو دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں۔“

(فتاویٰ اجملیہ، جلد 2، صفحہ 42، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم