مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13531
تاریخ اجراء:21ربیع الاول1446ھ/26ستمبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازِ مغرب کی پہلی رکعت میں امام صاحب سورۃ الکوثر کی تلاوت کرکے پھر اُسی رکعت میں سورۃ الاخلاص کی بھی تلاوت کرلیں تاکہ مزید نمازی جماعت میں شریک ہوسکیں، اس میں شرعاً کوئی حرج والی بات تو نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فرض نماز کی ایک ہی رکعت میں دو متفرق سورتیں پڑھنا، جبکہ اُن دونوں سورتوں کے مابین ایک یا ایک سے زیادہ سورتوں کا فاصلہ ہو، امام و منفرد سب کے لیے مکروہِ تنزیہی ہے، بلکہ امام کا دو سورتیں ملانا اگر مقتدیوں پر گراں گزرتا ہو تو یہ مکروہِ تحریمی و ناجائز و گناہ ہے، بشرطیکہ امام مسنون مقدار سے زائد قراءت کرچکا ہو ۔ پوچھی گئی صورت میں امام صاحب کا ایک ہی رکعت میں سورۃ الکوثر اور سورۃ الاخلاص کو جمع کرنا شرعاً مکروہِ تنزیہی ہے ، لیکن نماز ہو جائے گی ۔
فرض نماز کی ایک ہی رکعت میں ایک سے زائد سورتیں جمع کرنے سے متعلق علامہ شامی علیہ الرحمہ فتاوٰی شامی میں نقل فرماتے ہیں :”أما في ركعة فيكره الجمع بين سورتين بينهما سور أو سورة فتح۔ وفي التتارخانية: إذا جمع بين سورتين في ركعة رأيت في موضع أنه لا بأس به۔ وذكر شيخ الإسلام لا ينبغي له أن يفعل على ما هو ظاهر الرواية۔ اهـ۔ وفي شرح المنية: الأولى أن لا يفعل في الفرض ولو فعل لا يكره إلا أن يترك بينهما سورة أو أكثر۔“یعنی نمازی کا ایک ہی رکعت میں دو سورتوں کو جمع کرنا مکروہ ہے بشرطیکہ ان دونوں سورتوں کے مابین ایک یا ایک سے زیادہ سورتوں کا فاصلہ ہو، "فتح"۔ "تتارخانیہ" میں ہے کہ جب نمازی ایک ہی رکعت میں دو سورتوں کو جمع کرے تو میں نے کسی مقام پر یہ پڑھا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ "شیخ الاسلام " نے ذکر فرمایا ہے کہ نمازی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسا کرے اور یہی بات ظاہر الروایہ کے مطابق ہے، الخ۔ "شرح المنیہ" میں کہ بہتر یہی ہے کہ نمازی فرض نماز میں ایسا نہ کرے، اور اگر نمازی ایسا کرلیتا ہے تو مکروہ نہیں مگر یہ کہ ان دونوں سورتوں کے مابین ایک یا ایک سے زیادہ سورتوں کو چھوڑدے ۔ “(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 330، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے :”و اذا جمع بین سورتین بینھما سور او سورۃ واحدۃ فی رکعۃ واحدۃ یکرہ۔۔۔۔۔۔ هذا كله في الفرائض وأما في السنن فلا يكره، هكذا في المحيط ۔“یعنی فرض کی ایک ہی رکعت میں دو سورتوں کو جمع کرنا خواہ ان کے مابین ایک ہی سورت کا فاصلہ ہو یا ایک سے زیادہ سورتوں کا فاصلہ ہو، بہر صورت مکروہِ تنزیہی ہے۔ ۔۔۔۔۔ یہ تمام احکام فرائض کے ساتھ خاص ہیں، بہر حال سنت نماز میں مکروہ نہیں، اسی طرح محیط میں مذکور ہے۔ “(الفتاوٰى الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 79-78، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا”"در یک رکعت چند سورت خواند" (ایک رکعت میں متعدد سورتیں پڑھناکیسا ہے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ”"در رکعتے زیادہ بریک سورت خواندن در فرائض نباید امااگر کند مکروہ نباشد بشرط اتصال سور و اگر سور متفرقہ در رکعتے جمع کند مکروہ باشد کما فی الغنیۃ ثم ردالمحتار اقول و بحالت امامت شرطے دیگرنیز است وآں عدم تثقیل بر مقتدی ورنہ کراہت تحریمی است" (یعنی فرائض کی ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں نہیں پڑھنی چاہئیں ۔ اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو کراہت نہیں بشرطیکہ وہ سورتیں متصل ہوں ،اگر کوئی متفرق سُورتیں کسی ایک رکعت میں پڑھتا ہے تو یہ مکروہ ہےجیسا کہ غنیۃ اور ردالمحتار میں ہے۔ میں کہتا ہوں امام ہونے کی صورت میں ایک اور شرط بھی ہے وہ یہ کہ مقتدیوں پر گراں نہ گزرے ورنہ کراہت تحریمی ہوگی۔)“(فتاوٰی رضویہ، ج06،ص267، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ”"چوں تکرار یک سورت در دو ۲رکعت و دو۲ سورت در یک رکعت ہر دو در فرائض نا بائستہ بودتکرار یک سورت در یک رکعت اولی نبابائستگی باشد و ہمچناں تکرار آیت خاصہ موجب اطالت ثانیہ براولی باشد وکل ذلک خلاف الماثور المتوارث فی الفرائض فاما کرا ہت تحریم راوجہے نیست۔۔۔۔۔۔اقول وازصورت تثقیل بر مقتدی غافل نباید بو د کہ ہمچو سور زائد بر قدر مسنون است پس اگر گرانی آرد مطلقاً ناجا ئز و مکروہ تحریمی باشد و ایں حکم عام است مر فریضہ ونافلہ ہمہ راپس ہرجا از صورت جواز مستثنٰی بایدش فہمید ۔وﷲ تعالٰی اعلم۔" ( یعنی جب فرض کی دو رکعتوں میں ایک سورت کا تکرار یا ایک رکعت میں دوسورتوں کا مناسب نہیں تو ایک رکعت میں ایک سورت کا تکرار بطریق اولٰی مناسب نہ ہوگا، اسی طرح کسی مخصوص آیت کا تکرار دوسری رکعت کے پہلی رکعت کے طویل ہونے کی وجہ بن سکتا ہے ،اور یہ تمام باتیں فرائض کے بارے میں منقول ماثور کے خلاف ہیں لیکن اس کو مکروہ تحریمی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ۔۔۔۔۔۔میں کہتا ہوں مقتدی پر بوجھ ہونے کی صورت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ مثلاً مسنون مقدار سے زیادہ قراءت کرنے پر اگر نمازی بوجھ محسوس کرتا ہے تو ایسی صورت مطلقاً ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے اور تحریم کا یہ حکم ہر مقام پر ہوگاخواہ نمازفرض ہو یا نفل،البتہ ہرجگہ جائز صورت کو مستثنٰی سمجھ لینا چاہئے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔)“(فتاوٰی رضویہ، ج06،ص269-268، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟