Ibadaat Aur Mamlaat Me Fasid o Batil Ka Farq

عبادات اور معاملات میں فاسد و باطل کا فرق

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7894

تاریخ اجراء:27ذو القعدۃ الحرام1443ھ/27جون 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ  عبادات اور معاملات میں مذکور ”فاسد“ اور ”باطل“ میں کیا فرق ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اوَّلاً   عبادات  اور پھر معاملات میں ”فاسِد“ اور ”باطل“ کی مراد اور فرق  کو بیان کیا جائے گا، تا کہ خلطِ مَبْحَث نہ ہو۔

     (1)جمہور اور بالخصوص  فقہائے اَحناف کے نزدیک ”باب العبادات“ میں فاسِد اور باطل کی مراد یکساں ہے، اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں،  یعنی  دونوں کا مرادی معنی ایک ہی ہے اور وہ اُس فعل کا ”صحیح اور درست انداز پر نہ ہونا“ہے ، لہذا اِس بنیاد پر اُس عبادت کے متعلق ”فاسِد“ یا ”باطِل“ کسی ایک  کا حکم لگا دیا جاتا ہے، چنانچہ باب العبادات“ میں فاسِد اور باطل کی مراد یکساں ہونے کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’الفساد والبطلان في العبادات بمعنى واحد، وهو عدم الصحة۔۔۔على ما عرف في تحرير الأصول بخلافهما في المعاملات‘‘ ترجمہ:عبادات میں فساد اور بطلان ایک ہی معنی میں مستعمل ہیں اور وہ معنی ”اُس عبادت کا صحیح نہ ہونا“ہے۔اِس ضابطہ کو ”تحریر الاصول“ سے معلوم کیا گیا ہے۔البتہ باب المعاملات میں ”فساد“ اور ” بُطلان“ کا معنی مختلف ہے۔ (بحر الرائق، جلد2،صفحہ291،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

    دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’لا فرق بين الفساد والبطلان في العبادات، وهو ظاهر ما في الهداية‘‘ ترجمہ:عبادات میں لفظ ” فساد“ اور ”بطلان“ کے استعمال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی ”ھدایۃ“ میں موجود کلام سے ظاہر ہے۔(بحر الرائق، جلد2،صفحہ367،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

    اپنی دوسری کتاب”الاشباہ والنظائر“میں لکھتےہیں:’’الباطل والفاسد عندنا في العبادات مترادفان۔۔۔وأما في البيع، فمتباينان فباطله ما لا يكون مشروعا بأصله ووصفه، وفاسده ما كان مشروعا بأصله دون وصفه‘‘ ترجمہ:ہم احناف کے نزدیک عبادات میں ”فاسِد“ اور ”باطل“ مترادف المعنی ہیں،  البتہ بیع(معاملات) میں دونوں کا معنی جُدا ہے، چنانچہ ”باطِل“ وہ ہے جو اصل ووصف، دونوں اعتبار سے مشروع نہ ہو اور فاسِد وہ ہے کہ جو اصلاً تو مشروع ہو، البتہ وصفاً مشروع نہ ہو۔(الاشباہ والنظائر، صفحہ 291، مطبوعہ  دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں: أن أئمتنا لم يفرقوا في العبادات بينهما وإنما فرقوا في المعاملات‘‘ ترجمہ:بیشک ہمارےائمہ احناف عبادات کے باب میں ”فاسِد“ اور ”باطل“ میں فرق نہیں  کرتے، ہاں صرف ’’باب المعاملات ‘‘ میں  دونوں الفاظ کے مابین فرق کرتے ہیں۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2،مطلب واجبات الصلاۃ، صفحہ181، مطبوعہ  کوئٹہ)

    ‌دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:’’الفساد والبطلان في العبادات سواء بخلاف المعاملات على ما عرف في الأصول‘‘ ترجمہ:’’باب العبادات ‘‘میں فاسد اور باطل ہونا مساوی  اور یکساں معنی رکھتا ہے، برخلاف ”باب المعاملات“ کے، کہ وہاں اِن دونوں کا معنی مساوی نہیں، بلکہ مختلف ہے۔ اِس ضابطہ کو ”تحریر الاصول“ سے معلوم کیا گیا ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2،باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا، صفحہ445، مطبوعہ  کوئٹہ)

    جزئیات میں غور کیجیے، تو اوپر کی تمام کتب  کا مرجِع ”تحریر الاصول“ ہے۔ ذیلی سُطور میں اصل  تحریر الاصول“ کا جزئیہ ملاحظہ کیجیے اور فقہ حنفی میں اِس کتاب کے مقام کو جانیے۔

     تحریر الاصول مع شرحہ تیسیر التحریر“ میں ہے:’’والحنفیة  يقولون بأن الفساد هو البطلان (في العبادات) فالعبادة الفاسدة والباطلة بما فات فيها ركن أو شرط۔۔۔وفي المعاملة ففرق بين المعاملات (بالأسماء) المذكورة‘‘ ترجمہ:فقہائے اَحناف کا قول یہ ہے کہ عبادات کے باب میں فساد ہی ”بطلان“ہے، چنانچہ عبادتِ فاسدہ اور باطلہ وہ ہوتی ہے کہ  جس میں کوئی رکن یا شرط مفقود ہو، البتہ’’ باب المعاملات‘‘ میں فقہائے احناف   ذکر کردہ فاسد اور باطل کے ناموں سے فرق کرتے ہیں۔  (تحریر الاصول مع شرحہ تیسیر التحریر ، جلد2، صفحہ 235، مطبوعہ مکتبۃ الباز، مکۃ المکرمہ )

    التحریر فی الاصول“ صاحب فتح القدیر علامہ ابنِ ہمام حنفی اسکندری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) کی تصنیف ہے۔ یہ اور اِس کی شرح ”تیسیر التحریر“ دونوں ہی کتب اصولِ فقہ ِ حنفی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں، چنانچہ ” التحریر فی الاصول “ کو علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ”نسمات الاسحار“ میں ”من الکتب المقبولۃ المعتبرۃ“ میں شمار کیا ہے، یونہی ابو الحسنات علامہ عبدالحی لکھنوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1304ھ/1886ء) نے اِس کے متعلق لکھا:’’قد طالعت من تصانيفه فتح القدير وتحرير الأصول . . . الخ ، وكلّها مشتملة على فوائد قلّما توجد في غيرها‘‘ ترجمہ:میں نے علامہ ابنِ ہمام اسکندری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مُصنَّفات میں سے ”فتح القدیر“ اور ”تحریر الاصول“ کا مطالعہ کیا، تو میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ساری کی ساری کتاب ایسے نکات وفوائد پر مشتمل ہے کہ شاید ہی وہ نکات  کسی دوسری جگہ موجود ہوں۔(علامہ لکھنوی کا کلام مکمل ہوا۔)یونہی اِس کی شرح ”تیسیر التحریر“ علامہ  امیر بادشاہ خراسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:972ھ/1564ء)کی ہے۔ شارِح  خود اپنی اِس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں:’’صرفت خيار عمري في حلّ مشكلاته ، وبذلت كمال جهدي في فتح مغلقاته ، وبالغت في التنقيح والتوضيح‘‘ ترجمہ:میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اِس کتاب کی مشکل عبارات کے حل میں گزارا ہے، اِسی طرح اپنی مکمل محنت کو اِس کی گتھیاں سُلجھانے میں خرچ کیا ہے، نیز اِس کتاب کی تنقیح وتوضیح میں انتہائی کوشش اور اَن تھک محنت سے کام لیا ہے۔(لآلی المحار  فی تخریج مصادر ابنِ عابدین  فی حاشیتہ رد المحتار، صفحہ 160، مطبوعہ  دار الفتح للدراسات والنشر)

   الفقہ الاسلامی وادلتہ“میں ہے:’’أما العبادات فإن البطلان والفساد فيها مترادفان، فمخالفة أمر الشارع فيها يجعلها موصوفة بالفساد والبطلان، سواء أكان الخلل في ناحية جوهرية أم في ناحية فرعية متممة ‘‘ ترجمہ:باب العبادات میں ”بطلان“ اور ”فساد“ ہم معنی اور مترادف ہیں،  چنانچہ عبادات میں شارِع  کے احکامات کی مخالفت  اُس عبادت کو فساد اور بطلان سے موصوف کروا دیتی ہے۔  اِس چیزمیں کوئی فرق نہیں کہ پیدا ہونے والا خلل اصلِ عبادت میں ہو یا اُس عبادت کی کسی فرع میں ہو، جو  فرع اُس عبادت کی تمامیت کےلیے ہو۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، جلد5، صفحۃ 3395، مطبوعہ کوئٹہ)

    فساد وبطلان کی یکسانیت کی مثال:

    نماز کے ایک مسئلے میں قہستانی نےفساد اور بطلان کو جدا جدا یوں  لکھا:”لاتفسد ولاتبطل“ یعنی نماز نہ ہی فاسِد ہو گی اور نہ ہی باطل ہو گی۔ چنانچہ قہستانی کی اس عبارت پر علامہ حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے رد کرتے ہوئے صرف ”لاتفسد“ لکھا۔آپ کے ”لاتفسد“ لکھنے پر علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ وضاحت کی کہ دراصل علامہ حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا صرف ”لاتفسد“ کہنے پر اکتفاء کرنا  قہستانی کے رد کے طور پر تھا، کیونکہ ہمارے ائمہ احناف کے نزدیک عبادات کے باب میں فاسد اور باطل کی مراد یکساں ہی ہے، لہذا جدا جدا فاسد اور باطل کہنا درست نہ تھا۔ علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارت:’’(لاتفسد بترکھا) اشار بہ الی الرد علی القھستانی حیث قال: لاتفسد ولاتبطل ۔۔۔وجہ الرد أن أئمتنا لم يفرقوا في العبادات بينهما وإنما فرقوا في المعاملات‘‘ ترجمہ:مفہوماً بیان ہو چکا۔  (ردالمحتار مع درمختار، جلد2،مطلب واجبات الصلاۃ، صفحہ181، مطبوعہ  کوئٹہ)

   (2)باب المعاملات“ میں فاسِد اور باطل  کے الفاظ کا استعمال دو مختلف مرادوں اور معانی کے لیے ہوتا ہے،اوپر ”عبادات“ کے جزئیات میں ضمناً یہ بات گزر چکی ہے، البتہ اب علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) باب البیع الفاسد“ میں صراحتاًلکھتے ہیں:’’ قد علمت أن الفاسد مباين للباطل  لأن ما كان مشروعا بأصله فقط يباين ما ليس بمشروع أصلا وأيضا حكم الفاسد أنه يفيد الملك بالقبض والباطل لا يفيده أصلا، وتباين الحكمين دليل تباينهما، فإطلاق الفاسد في قولهم باب البيع الفاسد على ما يشمل الباطل لا يصح على حقيقته، فإما أن يكون لفظ الفاسد مشتركا بين الأعم والأخص أو يجعل مجازا عرفيا في الأعم؛ لأنه خير من الاشتراك، وتمامه في الفتح‘‘ ترجمہ:تو جان چکا کہ  ”معاملات“ میں فاسِد ، باطل سے الگ معنی ومفہوم رکھتا ہے، کیونکہ  جو معاملہ اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع ہو، وہ اصل کے اعتبار سے غیر مشروع معاملے سے متباین ہوتا ہے۔ یونہی بیعِ فاسِد کا حکم ہے کہ وہ قبضہ کے ساتھ ملکیت کا فائدہ  دیتی ہے، جبکہ باطل قطعاً ملکیت کا فائدہ نہیں دیتی اور دو چیزوں کا حکم مختلف ہونا، اُن کے جدا ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ فقہائے کرام کا ”باب البیع الفاسد“ میں لفظِ فاسد کا ”باطل“ پر اِطلاق کر دینا، حقیقۃً درست نہیں، چنانچہ اُن کے اطلاق کا محمل یہ ہے کہ یا تو ”فاسِد“ کا لفظ عام اور خاص کے مابین مشترک ہے، یا لفظِ فاسد کو اعم میں ”مجازِ عرفی“  بنا لیا جائے۔(مجازِ عرفی اصولِ فقہ کی ایک اصطلاح ہے۔) مجازِ عرفی  قرار دینا، ”مشترک“ قرار دینے سے بہتر ہے۔اِس کی تمام بحث ”فتح القدیر“ میں ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد7،باب البیع الفاسد، صفحہ232، مطبوعہ  کوئٹہ)

    معاملات میں فاسِد اور باطل کا فرق:

    معاملہ فاسِدہ وہ ہے  جو اپنی اصل کے اعتبار سے تو  مشروع  اور درست ہو، لیکن وصفاً  مشروع نہ ہو،  یعنی اصل معاملہ پر ایک ایسی عارضی چیز طاری ہو جو درست اور شرعی معیارات سے ہَٹ کر ہو،البتہ اصل معاملہ اپنی جگہ درست ہو، چنانچہ  علامہ عبدالعلی محمد بن نظام الدین لکھنوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1225ھ/1810ء)اپنی مشہور کتاب ”فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت   میں”المعاملۃ الفاسدۃ کا معنی یوں لکھتے ہیں:’’المعاملة الفاسدة المشروعة بأصله دون وصفه‘‘ ترجمہ:فاسد معاملہ وہ ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے تو مشروع ہو، لیکن اُس میں موجود وصف مشروع یعنی شریعت کی نظر میں درست  نہ ہو۔ (فواتح الرحموت شرح مُسَلَّم الثُبُوت، جلد1، صفحہ 98، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     تحریر الاصول مع شرحہ تیسیر التحریر“ میں ہے:’’ما كان مشروعا بأصله ووصفه سمي صحيحا لكونه موصلا إلى تمام المقصود مع سلامة الدين وما كان مشروعا بأصله دون وصفه سمي فاسدا وما لم يكن مشروعا بأصله لا بوصفه سمى باطلا‘‘ ترجمہ:جو اصل ووصف دونوں کے اعتبار سے مشروع ہو، وہ ”عقد“ یا ”معاملہ“ صحیح ہے، کیونکہ وہ دینی احکامات کی بجاآوری وسلامتی کے ساتھ مقصود تک لے جانے والا ہے اور جو معاملہ اصل کے اعتبار سے تو مشروع ہو، لیکن وصف کے لحاظ سے مشروع نہ ہو، اُسے ”فاسِد“ کہا جاتا ہے اور جو نہ ہی اصل کے لحاظ سے مشروع ہو اور نہ ہی وصف کے اعتبار سے مشروع ہو، تو اُسے ”باطل“ کہا جاتا ہے۔(تحریر الاصول مع شرحہ تیسیر التحریر ، جلد2، صفحہ 235، مطبوعہ مکتبۃ الباز، مکۃ المکرمہ)

    علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’ وهو ما كان مشروعا بأصله لا بوصفه۔۔۔ وأما الباطل وهو ما لا يكون مشروعا لا بأصله ولا بوصفه‘‘ ترجمہ:”فاسِد عقدیا معاملہ“ وہ ہے  جو اصل کے اعتبار سے تو مشروع ہو، لیکن وصف کے لحاظ سے مشروع نہ ہو، اور”باطل“ وہ کہ  جو نہ اصل کے لحاظ سے مشروع ہو اور نہ ہی وصف کے اعتبار سے مشروع ہو۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد7،باب البیع الفاسد، صفحہ232، مطبوعہ  کوئٹہ)

    باطل اور فاسد سے احکامات پر پڑنے والا اثر ”کتاب المعاملات(البیوع، النکاح، الاجارۃ و کتب العقود الاُخریٰ)“  میں درجنوں  مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم