Halat e Namaz Mein Walida Ke Bulane Par Jawab Dene Se Mutaliq Hadees Ki Sharah

 

حالتِ نمازمیں والدہ کے بلانے پر جواب دینےسے متعلق  حدیث پاک کی شرح

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul- 2865

تاریخ اجراء: 03 ذوالقعدۃ الحرام 1444  ھ/24 مئی 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا اس طرح کی کوئی حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہو کہ اگر میں نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری والدہ مجھے بلاتی، تو میں ان کو ضرور جواب دیتا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! اس طرح کی حدیث پاک کنزالعمال، شعب الایمان، کشف الخفاء اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔ اس حدیث پاک کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے،کیونکہ اس حدیث پاک کی سند میں یاسین بن معاذ نام کا راوی ہے، جس کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔تاہم یہ بات یاد رہے کہ والدہ کے بلانے پر نفل نماز توڑ دینے کا حکم  ایک  صحیح حدیث پاک(جس میں بنی اسرائیل کے ایک عابد جریج  کا ذکرہے) سے ثابت ہے،اسی لیے فقہائے کرام نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے والدین کو اس کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو اور ان میں سے کوئی اسے بلائے ،تو اب  نماز توڑدے۔

   راہب جریج کے واقعہ پر مشتمل حدیث نبوی میں اگرچہ پچھلی امت کے ایک واقعہ کا ذکر ہے مگرسابقہ شریعتوں کے وہ احکام  جن کو قرآن و حدیث میں بیان کرنے کے بعد رد نہیں کیا گیا، وہ بھی ہماری شریعت میں قابل عمل ہیں۔ اسی طرح اس حدیث پاک میں کوئی ایسے الفاظ موجود نہیں، جو اس کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتے ہوں اور نہ ہی شارحین نے اس قسم کا  کوئی حکم بیان کیا ہے، بلکہ انہوں نے اسی حدیث پاک کی بنیاد پر  یہ حکم  بیان کیا ہے کہ نفل نماز کے دوران والدین کے بلانے پر نماز توڑ سکتے ہیں، جبکہ والدین کو نماز پڑھنے کی حالت کا علم نہ ہو۔

   سوال میں بیان کی گئی حدیث پاک کے متعلق شعب الایمان میں ہے: ”اخبرنا ابو الحسين بن بشران، انا ابو جعفر الرزاز، نا يحيى بن جعفر، انا زيد بن الحباب، نا ياسين بن معاذ، نا عبد الله بن مرثد، عن طلق بن علی، قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول: لو ادركت والدي او احدهما وانا في صلاة العشاء، وقد قرات فيها بفاتحة الكتاب تنادي: يا محمد، لاجبتها: لبيك. ياسين بن معاذ ضعيف“ یعنی طلق بن علی سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں اپنے والدین کو یا کسی ایک کو پاتا اور نماز عشا میں ہوتا اور سورت فاتحہ بھی پڑھ چکا ہوتا اور وہ مجھے میرا نام لے کر بلاتے ، تو میں لبیک کہہ کر ان کو ضرور جواب دیتا۔یاسین بن معاذ نامی راوی ضعیف ہے۔(شعب الایمان، جلد10، صفحہ284، حدیث7497، مطبوعہ ریاض)

   کشف الخفاء میں ہے: ”لو دعاني والدي أو أحدهما وأنا في الصلاة لأجبته"، والحديث ضعيف “ یعنی اگر میرے والدین یا کوئی ایک مجھے بلاتے اور میں نماز میں ہوتا، تو میں ان کا جواب ضرور دیتا۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (کشف الخفاء، جلد2، صفحہ160، حدیث2110، قاھرہ)

   درمنثور میں ہے: ”اخرج البيهقی وضعفه عن طلق بن علی قال سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول لو ادركت والدي او  احدهما و انا فی صلاة العشاء وقد قرات فيها بفاتحة الكتاب فنادى يا محمد لاجبتهما لبيك“ یعنی امام بیہقی نے طلق بن علی کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی اور اس کو ضعیف قرار دیا۔طلق بن علی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں اپنے والدین کو یا کسی ایک کو پاتا اور نماز عشا میں سورت فاتحہ بھی پڑھ چکا ہوتا اور وہ مجھے میرا نام لے کر بلاتے ، تو میں لبیک کہہ کر ان کو ضرور جواب دیتا۔(الدرالمنثور، جلد5، صفحہ 266،بیروت)

   راہب جریج کے متعلق بخاری شریف کی حدیث پاک ہے: ”عن أبي هريرة، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم، قال: " لم يتكلم في المهد إلا ثلاثة: عيسى، وكان في بني إسرائيل رجل يقال له جريج، كان يصلي، جاءته أمه فدعته، فقال: أجيبها أو أصلي، فقالت: اللهم لا تمته حتى تريه وجوه المومسات، وكان جريج في صومعته، فتعرضت له امرأة وكلمته فأبى، فأتت راعيا فأمكنته من نفسها، فولدت غلاما، فقالت: من جريج فأتوه فكسروا صومعته وأنزلوه وسبوه، فتوضأ وصلى ثم أتى الغلام، فقال: من أبوك يا غلام؟ قال:الراعي، قالوا: نبني صومعتك من ذهب؟ قال: لا، إلا من طين“ یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پنگھوڑے میں تین لوگوں نے کلام کیا : پہلے حضرت عیسی علیہ السلام، دوسرے بنی اسرائیل کے ایک شخص  جن کو جریج کہا جاتا تھا، وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور ان کو بلایا۔ انہوں نےسوچا کہ میں اپنی والدہ کو جواب دوں یا نماز پڑھوں۔  ان کی والدہ نے بددعا دی کہ اے اللہ اس کو اس وقت موت نہ دینا جب تک یہ زانی عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج راہب ایک عبادت گاہ کے اندر موجود تھے کہ ایک عورت آئی اور ان کو گناہ کی دعوت دی، جس پر جریج راہب نے انکار کر دیا۔ پھر وہ عورت ایک چرواہے کے پاس آئی اور اس کے ساتھ زنا کیا، جس سے ایک بچہ پیدا ہو۔ اس زانیہ عورت نے کہا کہ یہ بچہ جریج  کا ہے۔ لوگ آئے اور ان کی عبادت گاہ کو توڑ  کر  ان کو نکال دیا اور ان کو برا بھلا کہا۔ جریج راہب نے وضو کر کے  نماز پڑھی، پھر بچے کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا باپ کون ہے ؟ اس نے کہا: چرواہا۔لوگوں نے جریج راہب سے کہا کہ ہم آپ کی عبادت گاہ  سونے کی اینٹوں سے  بنا دیتے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں، بس مٹی کا ہی بنا دو۔(الصحیح للبخاری، جلد4، صفحہ165، حدیث 3436، دار طوق النجاۃ)

   اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے: ” فيه إيثار إجابة الأم على صلاة التطوع، لأن إجابة الأم واجبة فلا تترك لأجل النافلة“ یعنی اس سے پتہ چلتا ہے کہ والدہ کی پکار کا جواب دینا نفلی نماز  پر فضیلت رکھتا ہے ،کیونکہ والدہ کے بلانے کا جواب دینا واجب ہے، لہذا اس کو نفلی نماز کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے۔(عمدۃا لقاری، جلد16، صفحہ31، بیروت)

   ماں کے بلانے پرنفلی نماز توڑنے کی وجہ ذکرکرتے ہوئے شرح مشکل الاثار اور المعتصر من المختصر میں ہے۔ واللفظ للاول :”لأنه قد يستطيع ترك صلاته وإجابته لأمه لما عليه أن يجيبها فيه والعود إلى صلاته؛ ولأن صلاته إذا فاتت قضاها وبره أمه إذا فات لم يستطع قضاءه، وقد دلك على ذلك ما روي عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في جريج الراهب“ کیونکہ نمازی اس بات پر قادر ہے کہ وہ نماز کو چھوڑ کر ماں کی پکار کا جواب دے، کیونکہ اس پر ماں کی پکار کا جواب  دینا لازم ہے اورجواب دینے کے بعد وہ دوبارہ نماز پڑھ سکتا ہے، نیز یہ کہ نماز کی قضا ممکن ہے، لیکن ماں کی اطاعت کی قضا نہیں ہے۔ اس  بات پر دلیل  وہ حدیث پاک ہے جو جریج راہب کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے۔(شرح مشکل الاثار، جلد4، صفحہ164، بیروت)

   نفلی نماز میں والدین کے بلانے پر نماز توڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ردالمحتار میں ہے: ” لانہ لیم عابد بنی اسرائیل علی ترکہ الاجابۃ وقال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ما معناہ لو کان فقیھا لاجاب امہ وھذا ان لم یعلم انہ یصلی فان علم لا تجب الاجابۃ“ یعنی والدہ کے بلانے پر جواب نہ دینے کی وجہ سےبنی اسرائیل کے عبادت گزار کو ملامت کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ اگر وہ فقیہ ہوتا، تو اپنی ماں کی پکار پر  جواب ضرور دیتا۔ یہ مسئلہ اس وقت ہے کہ جب والدین کو اس کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو۔ اگر علم ہو، تو  جواب دینا ضروری نہیں۔(ردالمحتار، جلد1، صفحہ655، بیروت)

   بہارشریعت میں ہے:” ماں باپ، دادا دادی وغیرہ اصول کے محض بلانے سے نماز قطع کرنا،  جائز نہیں، البتہ اگر ان کا پُکارنا بھی کسی بڑی مصیبت کے ليے ہو، جیسے اوپر مذکور ہوا تو توڑ دے، یہ حکم فرض کا ہے اور اگر نفل نماز ہے اور ان کو معلوم ہے کہ نماز پڑھتا ہے ،تو ان کے معمولی پُکارنے سے نماز نہ توڑے اور اس کا نماز پڑھنا انہیں معلوم نہ ہو اور پکارا، تو توڑ دے اور جواب دے، اگرچہ معمولی طور سے بلائیں ۔(بھارشریعت جلد1،حصہ3،صفحہ638، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   سابقہ شریعتوں کے احکام ہمارے لیے قابل عمل ہیں یا نہیں؟ اس کے متعلق اصول السرخسی میں ہے: ”اصح الاقاویل عندنا ان ما ثبت بکتاب اللہ  انہ کان شریعۃ من قبلنا او ببیان من رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فان علینا العمل بہ علی انہ شریعۃ لنبینا علیہ السلام ما لم یظھر ناسخہ“ یعنی  ہمارے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ  سابقہ شریعتوں کا جو حکم کتاب اللہ میں بیان کیا جائے یا حدیث رسول میں بیان کیا جائے، توہمارے لیے اس پر عمل کرنا اس لیے لازم ہے کہ وہ ہماری شریعت ہے، جب تک اس کا ناسخ موجود نہ ہو۔(اصول السرخسی، جلد2، صفحہ99، بیروت)

   بخاری شریف کی بیان کی گئی  راہب جریج والی حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے: ”ذكر ما يستفاد منه: فيه: الاحتجاج بأن شرع من قبلنا شرع لنا“یعنی اس حدیث پاک  میں دلیل ہے اس بات پر کہ سابقہ امتوں کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔(عمدۃ القاری، جلد13، صفحہ39، بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے: ”وما قص اللہ علينا من شرائع من قبلنا من غير نسخ يصير شريعة لنا مبتدأة ويلزمنا على أنه شريعتنا لا على أنه شريعة من قبلنا لما عرف في أصول الفقه“ یعنی اصول فقہ میں بیان کیا گیا ہے کہ پچھلی شریعتوں کے جو احکام اللہ تعالی نے  منسوخ کیے بغیر  بیان فرمائے ،  وہ احکام ہمارے لیے نئے شرعی احکام کی حیثیت  رکھتے ہیں اور ہمیں ان احکام پر اپنی شریعت کا حکم سمجھ کر عمل کرنا لازم ہے۔یہ گمان نہیں کیا جائے گا کہ یہ ہم سے پچھلی امت کا حکم تھا ۔(بدائع الصنائع، جلد4، صفحہ173، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ” شرائع من قبلنا اس وقت تک حجت ہیں کہ ہماری شریعت ممانعت نہ فرمائے۔“(فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ 549، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم