Gloves Pehan Kar Namaz Padhne Ka Hukum

دستانے (Gloves) پہن کر نماز پڑھنے کا حکم

مجیب: محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق : مفتی محمد قاسم  عطاری

فتوی نمبر:7380 Pin-

تاریخ اجراء: 25جمادی الاخریٰ1445ھ08جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سردی کی وجہ سے دستانے  پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پاک دستانے پہن کر نماز پڑھنا بلا شبہ  جائز ہے،کیونکہ نماز میں ہاتھ ننگے رکھنا ضروری نہیں،نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی سردی وغیرہ کی وجہ سے ہاتھ کپڑے سے ڈھانپ کر نماز ادا فرمائی ۔ البتہ اگر سردی وغیرہ کوئی عذر نہ ہو،تو مرد کے لیے ہاتھ ننگے رکھ کر ہی نماز پڑھنا بہتر ہے اور عورت کے لیے عمومی حالات میں بھی بہتر یہ ہے کہ وہ چادر وغیرہ میں ہاتھ چھپا کر نماز ادا کرے،کہ اس میں زیادہ ستر یعنی پردے کا اہتمام ہے۔

   حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اس کی کیفیت یہ بیان فرمائی: ’’رفع یدیہ حین دخل فی الصلاۃ کبر "وصف ھمام حیال اذنیہ"ثم التحف بثوبہ،ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری،فلما اراد ان یرکع اخرج یدہ من الثوب‘‘ترجمہ:آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب نماز شروع کی تو اپنے ہاتھ اٹھا کر تکبیر تحریمہ کہی (ہمام نے کہا کہ کانوں کے برابر ہاتھ اٹھائے)پھر انہیں کپڑے سے  ڈھانپ کر   سیدھے ہاتھ کودوسرے   ہاتھ پر رکھ  لیا ،پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا،تو اپنے ہاتھوں کو کپڑے سے نکال لیا۔(صحیح المسلم ،ج1ص173،مطبوعہ کراچی)

   التحف بثوبہ‘‘کے تحت ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’ای :تستّر بہ،یعنی:اخرج یدہ من الکمّ حین کبر للاحرام  ولما فرغ من التکبیر ادخل یدہ فی کمیہ ،قال ابن الملک:ولعل التحاف یدہ بکمیہ لبرد شدید او لبيان ان كشف اليدين فی غير التكبير غير واجب،قلت:فيه انه عند التكبير ايضاً غير واجب،بل مستحب ‘‘ترجمہ:نبی پاک  صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے تکبیر تحریمہ کے لیے  آستین سے اپنے ہاتھ مبارک نکالے اور جب تکبیر سے فارغ ہوئے،تو پھر آستین میں ہاتھ داخل کر لیے،ابن ملک نے فرمایا:شاید ہاتھوں کو آستین میں داخل کرنا  شدیدسردی کے باعث تھا یا یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ ہاتھ  کھول کر رکھنا واجب نہیں۔میں کہتا ہوں کہ تکبیرِ تحریمہ کے وقت بھی ہاتھ کھول کر رکھنا واجب نہیں،بلکہ مستحب ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،ج2،ص657،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   ملتقی الابحر اور اس کی شرح مجمع الانہر میں نماز کے مستحبات کے بیان میں ہے:’’(واخراج کفیہ من کمیہ عند التکبیر)لانہ اقرب الی التواضع وابعد من التشبہ بالجبابرۃ وامکن من نشر الاصابع،الا لضرورۃ البرد ونحوہ،قید  بدر الدین العینی بالاول، فقال: عند التکبیر الاول،لکن المصنف اطلقہ وفیہ اشعار بانہ یجوز ادخالھما فی الکمین فی غیر حال التکبیرلکن الاولی اخراجھما فی جمیع الاحوال،ھذا فی الرجال واما النساء فتجعل یدیھا فی کمیھا‘‘ترجمہ:تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہتھیلیوں کو آستین سے نکال لینا مستحب ہے،کیونکہ یہ عاجزی کے زیادہ  قریب اور متکبرین کی مشابہت سے دور ہے ،نیز اس میں انگلیاں کھولنے میں بھی آسانی ہے،مگر سردی وغیرہ عذر کی وجہ سے(اس کی رخصت ہے)امام بدر الدین عینی علیہ الرحمۃنے آستین سے ہاتھ باہر نکالنے کو تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ مقید کیا ہے ۔پس آپ نے فرمایا:پہلی تکبیر(تکبیرِتحریمہ )کے وقت (ہاتھ  آستین سے نکالنا مستحب ہے)لیکن مصنف علیہ الرحمۃنے اس کو مطلق رکھا ہے اور اس میں اس چیز کی خبر دینا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دونوں ہاتھ آستین میں داخل کرنا،جائز ہے،لیکن نماز کے تمام احوال میں  دونوں ہاتھ آستین سے باہر رکھنا اولیٰ ہے۔یہ حکم مردوں کے لیے ہے،بہر حال عورتیں اپنے ہاتھ آستین میں چھپا کر رکھیں گی۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر،ج1،ص91،مطبوعہ ،دار احیاء الترث ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم