Ghair Muakkadah Sunnatain Parhte Hue Jamat Khari Ho Jaye, To Kya Hukum Hai?

غیر موکدہ سنتیں پڑھتے ہوئے جماعت کھڑی ہوجائے ، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-9616-d

تاریخ اجراء:24رمضان المبارک1441ھ/18مئی2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرمسجدمیں سنت غیرموکدہ جیسے عصریاعشاکی قبلیہ  چاررکعت سنتیں پڑھ رہے ہوں اوروہاں پرعصریاعشا کی جماعت قائم ہوجائے، تویہ سنتیں چار کی بجائے دوپڑھ کرجماعت میں شامل ہوسکتے ہیں  یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذکورہ صورت میں عصریاعشا کی سنت غیرموکدہ کی دورکعتیں پوری کرکے جماعت میں شامل ہوجائے گا،جبکہ تیسری رکعت کے لیے کھڑانہ ہواہو،کیونکہ سنت غیر مؤکدہ نفل کے حکم میں ہیں اور نفل میں ہردورکعتیں جداگانہ شمار کی جاتی ہیں۔اگرتیسری کے لیے کھڑاہوگیاتوپھرچاررکعتیں پوری کرلے ۔

   تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے:’’لوكان فی النفل لايقطع مطلقاوإنمايتمه ركعتين‘‘ترجمہ:اگرنفل نمازپڑھتاہو،توان کومطلقاًنہیں توڑسکتااوراس کی دورکعتیں پوری کرے گا۔(تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق،جلد2،صفحہ76،دارالكتاب الإسلامی ،بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن سے ایک سوال ہوا:”علماء شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے چار  رکعت نماز سنت یا نفل کی نیت کرکے شروع کی،ابھی دوسری رکعت کی طرف اٹھا تھا کہ نماز فرض کی جماعت کے لیے تکبیر  ہوگئی، نفل و  سنت ادا کرنے  والا چار  رکعت  پوری کرے یا دو  پر  اکتفاء کرلے باقی دو رکعات ادا کرے یا نہ؟ بینوا تواجروا‘‘

   اس کے جواب میں ارشادفرمایا:’’مصلی نفل از آغا ز ثنا تا انجام تشھد در ھر چہ کہ باشد چوں ہنوز در شفع اول ست وبہر شفع دوم یعنی رکعت ثالثہ قیام نکر دہ کہ جماعت فرض قائم شد لاجرم بر ہمیں دو رکعات پیشیں اکتفا نماید و بجماعت در آید“ترجمہ:نفل ادا کرنے والا نمازی ثنا سے تشہد کے آخر تک جو  پہلی دو  رکعت میں ہے، ابھی تیسری رکعت کی طرف اس نے قیام نہیں کیا تھا کہ جماعت فرض کھڑی ہو گئی، تو  ایسے شخص  پر لازم  ہے کہ  وہ انہیں دو رکعات پر اکتفا کرے اور جماعت میں شریک ہو جائے۔فی الدرالمختار:’’ الشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین“ترجمہ:درمختار میں ہے: نوافل میں شروع ہونے والا انہیں مطلقاً قطع نہیں کرسکتا ،بلکہ دو رکعات پوری کرے۔

   و دو رکعت کہ باقی ماند قضائے آنہا برزمہ اش نیست زیر اکہ ہر شفع نفل نماز جدا گانہ است تا در شفع دوم آغاز تکرد واجب نشد  و چوں  واجب نشد قضا نیامد ۔ترجمہ:اور  جو دو رکعات باقی تھیں ان کی قضا اس کے ذمہ نہیں، کیونکہ نوافل کی ہر دو  رکعت الگ نماز  ہے، جب تک دوسرے شفع کا آغاز نہیں کیا جاتا ،وہ لازم نہیں ہوگا۔۔۔۔و ہمیں سب حکم سنن غیر  راتبہ مانند چار رکعت قبلیہ عصر  و عشاء کہ آنہم نافلہ بیش نیست“ترجمہ: اور غیر مؤکدہ سنن کا حکم بھی یہی ہے، مثلاً :عصر اور عشا کی پہلی سنتیں، ان کا درجہ بھی نوافل کا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد8،صفحہ129،130،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   درمختار باب ادراک الفریضۃ میں ہے:’’والشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین“ترجمہ:نفل نماز میں شروع ہونے والا مطلقا نماز نہیں توڑے گااور دورکعتیں پوری کرے گا۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:’’من النوافل کل شفع صلاۃ فالقیام الی الثالثۃ کالتحریمۃ المبتداۃ ،واذا کان اول ماتحرم یتم شفعا فکذا ھنا“ترجمہ: نوافل کا ہرشفع مکمل نماز ہے، پس تیسری رکعت میں کھڑا ہوجانا ابتدائی تحریمہ کی طرح ہے، جب پہلی تحریمہ کی صورت میں پورا شفع کرنا ہے، تو تیسری کی صورت میں بھی شفع پورا کرنا ہوگا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الصلوۃ،جلد2،صفحہ611،612،دارالفکر،بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :” نفل شروع کيے تھے اور جماعت قائم ہوئی، تو قطع نہ کرے ،بلکہ دو رکعت پوری کر لے، اگرچہ پہلی کا سجدہ بھی نہ کیا ہو اور تیسری پڑھتا ہو تو چار پوری کرلے۔ “(بھار شریعت، جلد4، صفحہ696، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم