Gaon Ki Abadi Shehar Se Mil Jaye To Musafir Ke Liye Shehar Mein Namaz Ka Hukum

 

گاؤں کی آبادی شہر سے مل جائے، تو مسافر کے لیے شہر میں نماز کا حکم ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0410

تاریخ اجراء: 17 صفرالمظفر1446ھ/23اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں  کہ اگر کوئی شخص شہر  کے ساتھ موجود ایک گاؤں میں رہتا ہو اور  اس گاؤں کی آبادی شہر کی آبادی سے بالکل مل گئی ہو، مکانات وغیرہ سب مل گئے ہوں اور وہ شخص شرعی سفر پر جائے، پھر واپسی میں اپنے گاؤں میں جانے سے پہلے اس شہر میں داخل ہو اور وہاں نماز کا وقت ہوجائے ،تو وہ وہاں  مکمل نماز پڑھے گا یا قصر پڑھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب اس گاؤں کی آبادی شہر سے ملی ہوئی ہےاور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ،تو وہ گاؤں شہر کے تابع ہوگیا اور یہ شہر اور گاؤں  اب ایک مقام کے حکم میں ہیں۔ اس لیے  جب گاؤں کا رہنے والا    سفر  شرعی سے واپسی پر  اس شہر میں داخل ہوگا، تو مسافر نہیں رہے گا، بلکہ قصر کے بغیر  مکمل نماز پڑھے گا۔

   درر شرح غرر میں ہے:”(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أی من نصف شهر (أو فيه) لكن (بموضعين مستقلين) كمكة ومنى فإنه يقصر إذ لا يصير مقيما فأما إذا تبع أحدهما الآخر بأن كانت القرية قريبة من المصر بحيث تجب الجمعة على ساكنها فإنه يصير مقيما بنية الإقامة فيهما فيتم بدخول أحدهما؛ لأنهما في الحكم كموضع واحد ترجمہ: لہٰذا مسافر نے اگرآدھے ماہ سےکم رہنے کی نیت کی ،تو وہ قصر نماز پڑھے گا یا اگر آدھا ماہ رکنے کی نیت کی، لیکن دو مستقل جگہوں پر رکنے کی نیت ہے، جیسے مکہ اور منیٰ تو اب یہ قصر کرے گا ،کیونکہ وہ مقیم نہیں کہلائے گا۔اور اگر دونوں جگہوں میں سے ایک جگہ دوسری کے تابع ہے ،مثلاً: ایک بستی شہر سے اتنی قریب ہے کہ بستی کے لوگوں پرجمعہ پڑھنا واجب ہوتا ہے ،تو اب یہ شخص ان دونوں جگہوں پر رکنے کی نیت کرنے سے بھی مقیم ہو جائے گا اور  کسی ایک میں بھی داخل ہوگیا، تو پوری نماز پڑھے گا ، کیونکہ یہ دونوں ایک جگہ کے حکم میں ہیں ۔ (درر الحكام شرح غرر الأحكام، جلد1، صفحہ 133، دار احیاء الکتب العربیہ)

   نہر الفائق میں ہے:” (لا) يتم إذا نوى الإقامة (بمكة ومنى) ونحوهما من مكانين كل منهما أصل بنفسه۔۔۔ بخلاف ما إذا كان أحدهما تبعًا للآخر، كالقرية إذا قربت من المصر بحيث تجب الجمعة على ساكنها، لأنها فی حكم المصرترجمہ:اگر اس نے مکہ اور منیٰ یا اس طرح کی ایسی دو جگہوں میں پندرہ دن رہنے کی نیت کی کہ ان میں سے ہر ایک فی نفسہٖ مستقل ہے، تو  اب یہ شخص پوری نمار نہیں پڑھے گا ۔۔۔ بخلاف اس کے کہ اگر ان میں سے ایک جگہ دوسری کےتابع ہو،جیسے ایک بستی جو شہر سے اتنی قریب ہے کہ بستی والوں پر جمعہ واجب ہوتا ہے (تواس صورت میں یہ پوری نماز پڑھے گا) کیونکہ اب یہ بستی شہر کے حکم میں ہے ۔(النهر الفائق، جلد1، صفحہ 346، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   ردالمحتار میں ہے:”أشار إلی أنہ یشترط مفارقۃ ما کان من توابع موضع الإقامۃ کربض المصر وھو ما حول المدینۃ من بیوت  و مساکن فإنہ فی حکم المصر وکذاالقری المتصلۃ بالربض فی الصحیح‘‘ ترجمہ:علامہ شرنبلالی نے اس طرف اشارہ کیا کہ اقامت کی جگہ کے جو توابع ہیں ان سے باہر ہوجانا بھی شرط ہے، جیسے شہر کے ارد گرد  جو گھر  ورہائش گاہیں ہوتی ہیں، کیونکہ وہ شہر کے حکم میں ہوتی ہیں، اسی طرح   شہر سے ملی ہوئی ان رہائش گاہوں  سےملحقہ  بستی  بھی صحیح قول کے مطابق (شہر کے حکم میں ہے ،تو اس بستی سے باہر ہو جانا بھی شرط ہے)۔ (در مختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ121، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم