Farzon Ke Baad Aur Sunnaton Se Pehle Kisi Ko Salam Karna

 

فرضوں کے بعد اور سنتوں سے پہلے کسی کو سلام کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0416

تاریخ اجراء: 01ربیع الاول1446ھ/06ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں،جیسے ظہر ،جمعہ ،مغرب و عشاء، ان میں  فرضوں کے بعد اور سنتوں کے درمیان ایک دوسرے سے سلام کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں،ان میں فرضوں کے بعد اور سنتوں سے پہلے ایک دوسرے کو سلام کرنا ،مکروہ تنزیہی ہے (یعنی گناہ نہیں، لیکن ناپسندیدہ عمل ہے)،جس سے  سنتوں کے ثواب میں کمی آجاتی ہے۔

   اس لیے کہ ان نمازوں میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرائض کے بعدمختصر دعا پڑھتےاور اس کے فوراً بعد کاشانہ اقدس  میں تشریف لے جا کر سنتیں ادا فرماتے تھے،اسی  بنا پر فقہائے  عظام نے  فرائض و سنن کے درمیان مختصر دعا اور(سنتیں گھر آکر پڑھنے کی صورت میں) گھر آنے کی مقدارفاصلے کے علاوہ ہرمنافی نمازعمل کو مکروہ و ناپسندیدہ فرمایااور  چونکہ سلام  کرنا بھی منافی نماز عمل ہے،لہٰذا یہ بھی مذکورہ کراہت  کے تحت داخل ہے۔

   سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامعمول مبارک بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا ارشاد فرماتی ہیں:” كان النبی صلى اللہ عليه وسلم إذا سلم لم يقعد إلا مقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام “سرکار دو عالم صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم جب فرائض سے سلام پھیرتے،توفقط”اللهم أنت السلام ومنك السلام،تباركت ذا الجلال والإكرام “ پڑھنے کی مقدار تشریف رکھا کرتے تھے۔(صحیح المسلم، ج01، ص414،رقم592،دار احیاء التراث العربی)

   مذکورہ حدیث کے تحت طیبی میں ہے:”إنما ذلك في صلاة بعدها راتبة، أما التي لا راتبة بعدها كصلاة الصبح فلا “یہ فعل مبارک ان فرائض کے بعد تھا جن کے بعدسنتیں ہیں،اورجن کے بعد سنتیں نہیں جیسا کہ نماز فجر، ان کے بعد یہ معمول نہ تھا۔(شرح المشکوۃ للطیبی،ج03،ص1057،مطبوعہ ریاض)

   ’’مفاتیح شرح المصابیح ‘‘میں ہے:لا يقعد إذا سلم من فريضة بعدها سنة إلا هذا المقدار، وهي الظهر والمغرب والعشاء“جس فرض کے بعد سنتیں ہیں،جیسے ظہر،مغرب اور عشاء،ان  سے سلام پھیرنے کے بعد  صرف اتنی دیر تشریف رکھتے تھے۔(المفاتيح فی شرح المصابيح،ج02،ص 174،دار النوادر)

   فرائض کے بعد بلافصل سنن کی ادائیگی کرنی چاہیے،ان کے مابین مختصر دعا کی مقدار فاصلہ کیا جاسکتا ہے،اس سے زائد فاصلہ کرنا مکروہ ہے،نیز ان کے مابین کلام یا منافی تحریمہ عمل بھی مکروہ ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:”(ولو تكلم بين السنة والفرض لا يسقطها ولكن ينقص ثوابها وكذا كل عمل ينافي التحريمة على الأصح) قنية“سنت وفرض کے درمیان کلام کرنا،سنت کو ساقط نہیں کرتا ، تاہم اس کے ثواب  کو کم کردیتاہے،اسی طرح اصح قول کے مطابق  ہر منافی تحریمہ فعل کا حکم ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار ملتقطاً،ج02،ص19، 20،دار الفکر)

   ’’بریقہ محمودیہ‘‘ میں ہے:” يكره الكلام بين السنن والفرائض“سنن و فرائض کے درمیان کلام کرنا ،مکروہ ہے۔(بریقہ محمودیہ فی شرح طریقۃ محمدیۃ،ج03،ص300،مطبعۃ الحلبی)

   بہار شریعت میں ہے :’’جن فرضوں کے بعد سنتیں ہیں،ان میں بعد فرض کلام نہ کرنا چاہیے، اگرچہ سنتیں ہو جائیں گی،مگر ثواب کم ہو گا اور سنتوں میں تاخیر بھی مکروہ ہے۔“ (بھارشریعت ،ج01،ص537،مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   ایک دوسری جگہ فرمایا :’’سنت و فرض کے درمیان کلام کرنے سے اصح یہ ہے کہ سنت باطل نہیں ہوتی ،البتہ ثواب کم ہو جاتا ہے۔ یہی حکم ہر اُس کام کا ہے، جو منافی تحریمہ ہے۔ ‘‘(بھارشریعت ،ج01،ص666،مکتبۃ المدینہ،کراچی )

   مذکورہ کراہت کے کراہت تنزیہی ہونے کےمتعلق فتاوی رضویہ میں ہے:”فصل طویل مکروہ تنزیہی وخلافِ اَولیٰ ہے اور فصل قلیل میں اصلا حرج نہیں۔’’در مختارفصل صفۃ الصلوٰۃ‘‘ میں ہے:” ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف وفی حفظی حملہ علی القلیلۃ “سنتوں میں ”اللھم انت السلام الخ“کی مقدار سے زائد فاصلہ کرنا مکروہ ہے،حلوانی نے کہا کہ  اوراد و ظائف کی وجہ سے فاصلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں،حلبی نے فرمایا کہ اگر یہاں کراہت سے کراہت تنزیہی ہو،تو اختلاف ہی ختم ہوجائے گا،میں کہتا ہوں میرے حافظے کے مطابق حلوانی نےاسے اورَادِ قلیلہ پر محمول کیا ہے۔“(فتاوی رضویہ، ج06،ص234، 235،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اگر سنتیں گھر میں ادا کرنی ہوں،تو گھر آنے کی مقدار فاصلہ مکروہ نہیں، شامی میں ہے:”أن الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشائخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق“مذکورہ گفتگو اس صورت میں ہے جبکہ سنتیں فرض کی جگہ ادا کی جائیں،کیونکہ کلمات مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ سنن حتی کہ سنت مغرب بھی  گھر میں پڑھنا افضل ہےیعنی گھر  کی مسافت کا فاصلہ مکروہ نہیں۔ (رد المحتار،ج01، ص530،دار الفکر )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم