Fajar Ki Sunnatain Kis Waqt Parhna Afzal Hai?

فجر کی سنتیں کس وقت پڑھنا افضل ہے ؟

مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0196

تاریخ اجراء:16ربیع الاول1445ھ/03 اکتوبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سنتِ فجر پڑھنا کس وقت افضل ہے؟ کیا اذان ِ فجر سے پہلے ہی اس کا پڑھ لینا بہتر ہے؟   زید کا کہنا ہے  اذان سے پہلے پڑھنا افضل ہے  ، کیونکہ ملفوظات  شریف میں ہے :’’عرض :  سنت الفجر اول وقت پڑھے یا متصل فرضوں کے ؟  ارشاد:  اول وقت پڑھنا  اَولیٰ ہے ۔حدیث شریف میں ہے :جب انسان سوتا ہے ، شیطان تین گرہ لگا دیتاہے۔ جب صبح اُٹھتے ہی وہ رب عزوجل کا نام لیتا ہے ، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور وُضو کے بعد دوسری اور جب  سنتوں کی نیت باندھی، تیسری بھی کُھل جاتی ہے، لہٰذا اول وقت  سنتیں پڑھنا اَولیٰ ہے۔‘‘(ملفوظات حصہ 3 ص 352)

   اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی سنتیں بالکل اول وقت میں پڑھ لینا افضل ہے اگرچہ اذانِ فجر نہ ہوئی ہو۔ اس بارے میں رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سنتِ فجر اذانِ فجر کے بعد  ہی ادا کرنا افضل ہے کہ ان سنتوں کا وقت  اذان واقامت کے درمیان ہی ہے ۔ اول وقت سے مراد بھی یہی ہے کہ اذان ہوتے ہی اسے ادا کرلیا جائے ۔

   تفصیل اس کی یہ ہے کہ سنتِ فجر کے حوالے سے فقہائے کرام نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ان کا وقت اذان واقامت کے درمیان ہے ۔نیز سنت قبلیہ سے ایک مقصود اذان واقامت کے مابین فصل بھی ہوتا ہے  ، اس کا بھی یہی تقاضاہے کہ اذان کے بعد سنت فجر ادا کی جائیں، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان کو اول وقت میں پڑھنا افضل ہے یا فجر کے فرضوں کی طرح روشنی میں پڑھنا افضل ہے ۔ راجح قول یہی ہے کہ اول وقت میں پڑھنا افضل ہے ۔

    نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کا سنتِ فجر ادا فرمانے کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا کہ آپ اذانِ فجر کے بعد یہ سنتیں ادا فرمایا کرتے تھے ۔

   امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں :”قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام، فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يستبين الفجر، ثم اضطجع على شقه الأيمن، حتى يأتيه المؤذن للاقامۃ ‘‘ترجمہ :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ  جب موذن نماز فجر کی پہلی اذان سے  فارغ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوکر  دو رکعت خفیف  نماز فجر سے قبل اور صبح صادق چمک جانے کے بعد ادا فرماتے  پھر اپنی سیدھی کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ موذن اقامت کیلئے آتا ۔(صحيح البخاری ، جلد 1 ، ص128 ، رقم الحدیث ، 626 ، طبع دار المنھاج )

   امام مسلم رحمۃ اللہ تعالی  علیہ کے روایت کردہ الفاظ یہ ہیں:’’عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهي التي يدعو الناس العتمة  إلى الفجر، إحدى عشرة ركعة، يسلم بين كل ركعتين، ويوتر بواحدة، فإذا سكت المؤذن من صلاة الفجر، وتبين له الفجر، وجاءه المؤذن، قام فركع ركعتين خفيفتين، ثم اضطجع على شقه الأيمن، حتى يأتيه المؤذن للاقامة‘‘ترجمہ: نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ  حضور پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ عشا جس کو لوگ عتمہ کہتے ہیں ،سے فارغ ہونےکے بعد سے  نماز فجر کے درمیان  گیارہ رکعات نماز پڑھتے ،ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ان کو ایک رکعت سے طاق بنادیتے  تھے ،پھر جب مؤذن اذان فجر سے خاموش ہوتے  اور ان کے لیے صبح صادق واضح ہوجاتی  اور وہ حضور پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوتے ، تو حضور پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  بیدار ہوکر  دو رکعت ہلکی نماز ادا فرماتے ؛ پھر اپنے سیدھے کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کے لیے آجاتا ۔(صحیح مسلم ، جلد 1 ، صفحہ 508 ، رقم الحدیث 536  ، مطبوعہ  دار الکتاب العربی )

   سنتِ فجر کا مقام اذان واقامت کے درمیان ہے، جیسا کہ مبسوط سرخسی میں ہے :’’ان موضعها بين الأذان والإقامة‘‘ترجمہ: ان کا اصل مقام اذان و اقامت کے درمیان ہے۔(المبسوط ، جلد 1  ، ص 162 ، طبع دار المعرفۃ ، بیروت)

   مغرب کے علاوہ باقی نمازوں میں اذان واقامت کے درمیان سنن کے ذریعے فصل کرنا مستحب ہے ۔ محیط برہانی میں ہے:”قال في الجامع الصغير : ويجلس بين الأذان والإقامة إلا في المغرب، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما اللهُ: يجلس في المغرب أيضاً جلسة خفيفة يجب أن يعلم بأن الفصل بين الأذان والإقامة في سائر الصلوات مستحب.  واعتبر الفصل في سائر الصلوات بالصلاة، حتى قلنا: إن في الصلوات التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب، فالأولى للمؤذن أن يتطوع بين الأذان والإقامة.ولم يعتبر الفصل في المغرب بالصلاة، لأن الفصل بالصلاة في المغرب يؤدي إلى تأخير المغرب عن أول وقته، وتأخير المغرب مكروه، وقال النبي عليه السلام :لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب إلى اشتباك النجوم ويؤيده قوله عليه السلام: بين كل أذانين صلاة إلا المغرب ، وأراد بالأذانين الأذان والإقامة، وإذا لم يفصل بالصلاة في المغرب يتأدى بفصل“ترجمہ:امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جامع صغیر میں فرمایا کہ مؤذن اذان و اقامت کے درمیان بیٹھے سوائے مغرب کے ۔۔۔اور یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے ، اور صاحبین نے فرمایا  کہ مغرب میں بھی  کچھ دیر بیٹھے گا ، تاکہ یہ جان لیا جائے کہ تمام نمازوں میں اذان و اقامت کے درمیان فصل کرنا مستحب ہے اور تمام نمازوں میں نماز ہی کے ذریعے فصل کرنا معتبر ہے ،یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ جن نمازوں سےپہلے سنت یا مستحب نماز ہے ، تو ان میں مؤذن کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اذان و اقامت کے درمیان نفل پڑھ لے  اور مغرب میں نماز کے ذریعے فصل کرنے کا اعتبار اس لئے نہیں کیا کہ مغرب میں نماز کے ذریعے فصل کرنا  مغرب کو اس کے اول وقت سے مؤخر کرنے کی طرف لے جائے گا  اور مغرب کو مؤخر کرنا مکروہ ہےاور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:میری امت بھلائی پر رہے گی جب تک کہ وہ مغرب کو ستاروں کے قریب قریب ہونے تک مؤخر نہ کریں اور اسی کی تائید حضور پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا یہ فرمان کرتا ہےکہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے سوائے مغرب  کےاور اس میں دو اذانوں سے مراد اذان و اقامت ہے اور جب مغرب میں نماز کے ذریعے فصل نہیں کیا جائےگا، تو معمولی وقفہ کے ساتھ اس کی ادائیگی کی جائے گی۔(المحیط البرھانی ، جلد 1 ، صفحہ 346 ، طبع دار  احیاء التراث ملتقطا)

   جب اذانِ فجر  ہوجائے ، تو اس کے فوری بعد سنتیں پڑھنا افضل ہے یا تاخیر کے ساتھ اِسفار میں   ؟ اس میں علماء کے دونوں طرح کے قول ہیں ۔ افضل جلدی پڑھ لینا ہے جیسا کہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ملفوظات کی عبارت میں مذکور ہے۔

خلاصۃ الفتاوی میں ہے :’’والسنة في ركعتي الفجر ثلاث (إلى أن قال) والثانية أن يأتي بهما  أول الوقت‘‘ترجمہ: فجر کی دو سنتوں میں تین باتیں سنت ہیں :(ان میں سے) دوسری بات یہ ہے کہ ان سنتوں کو اول وقت میں ادا کیا جائے  ۔(خلاصۃ الفتاوی ، جلد 1، صفحہ 61 ، طبع کوئٹہ)

   فتاوی بزازیہ میں ہے:’’ويأتي بهما في أول الوقت‘‘ ترجمہ:ان سنتوں کو اول وقت میں ادا کرے ۔(الفتاوى البزازیہ ، جلد 1 ، ص 28 ، طبع بیروت)

   فتاوی تاتار خانیہ میں الحاوی کے حوالے سے ہے:’’قال الإمام الزاهد عبد الجبار: المستحب أن يؤدى ركعتي الفجر قريب الفريضة‘‘ترجمہ: امام زاہد عبد الجبار فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ سنت فجر کو فرض کے قریب ادا کیا جائے۔(الفتاوی التاتار خانیہ ، ج 2 ، ص 305 ، طبع کوئٹہ)

   در مختار میں ہے:’’الإسفار بسنة الفجر أفضل وقيل لا‘‘سنت فجر میں اسفار افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ(اسفار افضل) نہیں۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے :’’قولہ :( وقیل لا)ظاھر حکایتہ بقیل ان الاول ھو المعتمد ،و ھو الذی یقتضیہ ما فی المحیط   و یؤید القیل ما فی البحر عن الخلاصۃ  ان سنۃ الفجر تختص بثلاثۃ اشیاء منھا انہ یاتی بھا اول الوقت“ترجمہ:شارح علیہ الرحمۃ کا قول کہ کہا گیا ہے کہ افضل نہیں ،شارح کا اس کو قِیْلَ کے ساتھ حکایت کرنے کا ظاہر یہ ہے کہ پہلا قول معتمد ہے،اور یہ وہی ہے جس  کا محیط میں موجود مسئلہ  بھی تقاضا کرتا ہے اور قِیْلَ والے قول کی تائید وہ بات کرتی ہے جو بحر میں خلاصہ سے منقول ہے کہ سنت فجر تین چیزوں کے ساتھ خاص ہے ان میں ایک یہ ہے کہ ان کو اول وقت میں ادا کیا جائے گا ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ، ج02 ، ص 416 ، دار الکتب العلمیۃ)

   مراقی الفلاح کے حاشیہ میں اول وقت کو ترجیح دیتے ہوئے ارشاد  فرماتے ہیں:’’ والأفضل في سنة الفجر أداؤها في أول الوقت مع التخفيف وقيل يفضل الاسفار ‘‘ترجمہ: سنت فجر میں افضل یہ ہے کہ اسے اول وقت میں ادا کیا جائے اور مختصر پڑھا جائے اور ایک قول یہ ہے کہ  روشنی کرکے پڑھنا افضل ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح  ، صفحہ 258  ، طبع مصر )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم