Fajar Ki Namaz Qaza Ho Jaye To Farzo Ke Sath Sunnatain Bhi Parhni Hai?

فجر کی نماز قضا ہوجائے ،تو فرضوں کے ساتھ سنتیں بھی پڑھنی ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم  عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8210

تاریخ اجراء:07رجب المرجب1444ھ/30جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  اگر کسی کی  فجرکی نمازقضا ہوجائے اور اسی دن سورج نکلنے کے بیس منٹ بعد ضحوۂ کبریٰ سے پہلے پہلے  پڑھنی ہو ، تو کیا سنت اور فرض دونوں ادا کریں گے اور کیا فرضوں کے ساتھ ساتھ سنت میں بھی قضا کی نیت کریں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کسی کی نماز ِفجر قضا ہوجائے ، تو اسی دن سورج نکلنے کے بیس منٹ بعداور ضحوۂ کبریٰ سے پہلے پہلے قضا پڑھ رہا ہو، تو فرضوں کی قضا تو فرض ہی ہے، اس سے پہلے ساتھ میں سنت کی بھی قضا کرلےاور دو رکعتوں میں  سُنّت ِ فجرکی قضا  اور دوسری دو رکعتوں میں فرض کی  قضا  کی نیت کرے۔

   تفصیل یہ ہے کہ  سُنّت کے متعلق عمومی اُصول یہی ہے کہ سنت کی قضا نہیں ،مگر وقت ختم ہونے کے بعد سُنّت ِفجر کی قضا کا حکم خلافِ قیاس حدیثِ پاک سے ثابت ہے ، چنانچہ لیلۃ التعریس میں نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی جب نمازِفجر قضا ہوئی ، تواس وقت ان حضرات قدسیہ نے فرضوں کے ساتھ ساتھ سنتِ فجر  کی بھی قضا کی اور جس سنّت کے اپنے محل سے فوت  ہونے کے بعد اس کا وقت خود نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ معین فرما دیں،تو اس کی قضا بھی قضائےحقیقی ہے ، لہٰذا جب کسی کی نمازِفجر  رہ  جائے ، تو اسی دن سورج نکلنے کے بیس منٹ بعد ضحوۂ کبریٰ سے پہلے ادا کرنے کی صورت میں وہ فجر کے فرضوں کے ساتھ سنتوں کی بھی قضا کرے گا، نیز قضا نماز فوت شدہ کی مثل ،بلکہ محققین علماء کے نزدیک عینِ نماز ہوتی ہے، لہٰذاجب سُنّتِ فجر کی قضا کی جائے گی ، توبعینہاوہی سنتیں ادا ہوں  گی   جو فوت ہوئی تھیں ، اس لیے ان کی ادائیگی میں قضا کی نیت بھی بالکل درست ہوگی۔

   تنبیہ:اگر یہ شبہ پیدا ہو کہ جب سنتِ فجر کی قضا حقیقی ہے ، تو ضحوۂ کبریٰ سے پہلے کی قید کیوں لگائی جاتی ہے ،جب بھی قضا کی جائے ، فرض کے ساتھ سنت کی قضا بھی ہونی چاہیے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو حکم خلاف ِقیاس ثابت ہو ، وہ اپنے مَوْرِدْ تک ہی خاص رہتا ہے ،یعنی جس قدر حکم ثابت ہو ، اس پر اضافہ نہیں کیا جاسکتا اور حدیث پاک سے اسی دن ضحوۂ کبری ٰ سے پہلے پہلے پڑھنے کا ثبوت ہے ، اس لیے یہ حکم صرف اسی دن کے ساتھ خاص ہو گا اور ضحوۂ کبریٰ کے بعد سنتِ فجر کی قضا نہیں ہو سکتی ۔

   سُنّت میں اصل عدمِ قضا  ہے ، چنانچہ علامہ بُر ہانُ الدین  مَرْغِینانی، علامہ ابن نجیم مصری حنفی  اور دیگر فقہائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ نے لکھا، واللفظ للآخر :أن الأصل في السنة أن لا تقضى ترجمہ: سنت میں اصل یہ  ہے کہ اس کی قضا نہیں ۔(بحر الرائق،کتاب الصلاۃ ، جلد2،صفحہ131،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   وقت ختم ہونے کے بعد سنتِ فجر کی قضا حدیث پاک سے ثابت ہے ، چنانچہ صحىح مسلم ، سنن ابوداؤد  اور دیگر کتب احادیث میں ہے ،حضرت عَمروبن اُمیہ ضمری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں، واللفظ لابی داؤد: كنا مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في بعض أسفاره فنام عن الصبح حتى طلعت الشمس فاستيقظ رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فقال: تنحوا عن هذا المكان، قال: ثم أمر بلالا فأذن، ثم توضئوا وصلوا ركعتي الفجر، ثم أمر بلالا ،فأقام الصلاة فصلى بهم صلاة الصبحترجمہ: ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، تو  آپ صبح میں سوئے رہے ، حتی کہ سورج طلوع ہو گیا ، تو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہوئے  اور ارشاد فرمایا، اس جگہ سےہٹ جاؤ(اس مقام سے آگے بڑھنے  کا حکم دیاراوی کہتے ہیں ، پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو حکم دیا، توانہوں نے اذان دی اور لوگوں نے وضو کرکے فجر کی دو رکعتیں  (سنتیں) ادا کیں ، پھرنبی پاک عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام  نے حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو حکم دیا ، تو انہوں نے نماز کےلیے اقامت کہی  اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو نماز فجر پڑھائی۔(سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب فی من نام عن الصلاۃ، جلد1، صفحہ 76، مطبوعہ لاھور)

   مذکورہ بالا مضمون کی حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:خیال رہے کہ یہاں نماز کی اذان بھی کہی گئی اور تکبیربھی، سنتیں بھی پڑھی گئیں اورجماعت سے نمازبھی،لہٰذا اس حدیث سے بہت سے فقہی مسائل حل ہوئے۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد1، صفحہ425، مطبوعہ  ضیاء القرآن ، پبلی کیشنز، لاھور)

   فتح القدیر، بحر الرائق ، نہر الفائق، رد المحتار وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ للبحر : لم تقض سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفرض فتقضى تبعا للفرض سواء قضاها مع الجماعة أو وحده لأن الأصل في السنة أن لا تقضى لاختصاص القضاء بالواجب والحديث ورد في قضائها تبعا للفرض في غداة ليلة التعريس فبقي ما وراءه على الأصل  ترجمہ : سنت فجر کی قضااسی صورت میں ہے جب یہ فرضوں کے ساتھ فوت ہوجائیں ، لہٰذا ان کی قضا فرضوں کے تابع ہو کر ہے ، چاہے پوری جماعت ایک ساتھ قضا کرے یا اکیلا شخص ، کیونکہ سنت میں اصل یہ ہے کہ اس کی قضا نہیں ، اس لیے کہ قضاواجب کے ساتھ خاص ہے اور (جہاں تک سنّتِ فجر کا معاملہ ہے تو ) سنتِ فجر کو فرضوں  کی تبعیت میں قضا کرنے کے متعلق لیلۃ التعریس  والی حدیثِ پاک آ چکی ہے ، ، لہٰذا  ان کے علاوہ بقیہ سنّتوں کا حکم اپنی اصل پر باقی رہے گا ۔(بحر الرائق،کتاب الصلاۃ ، جلد2،صفحہ131،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   اور سنت فجر کی قضا اسی دن ضحوۂ کبرٰی سے پہلےادا کرنے  کے ساتھ خاص ہونے کے متعلق امام کمال الدین  ابنِ ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:لا تقضی وان کانت تبعا للفرض  لانہ صلى اللہ عليه وسلم انما قضاھا تبعالہ قبل الزوال ترجمہ : ضحوۂ کبریٰ کے بعد سنت ِ فجر کی قضا نہیں ہو سکتی ، اگرچہ فرضوں کے تابع ہو کر ہو ، کیونکہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرضوں کے ساتھ ضحوۂ کبری ٰسے پہلے قضا فرمائی ہیں ۔(فتح القدیر، کتاب الصلاۃ ، باب ادراک الفریضہ ،جلد1، صفحہ497، مطبوعہ کوئٹہ)

   اور بحرا لرائق  اور نہر الفائق میں ہے ، واللفظ للآخر:’’والأصح أنها لا تقضى لأن ما ورد على خلاف القياس يقتصر فيه على مورد النصترجمہ : اور اصح قول کے مطابق ضحوۂ کبریٰ کے بعد سنت ِ فجر کی قضا نہیں کر سکتا ، کیونکہ جو حکم خلافِ قیاس ثابت ہو ، وہ اپنے مورد کے ساتھ ہی خاص رہتا ہے ۔(النھر الفائق، کتاب ٰالصلاة، جلد1،  صفحہ311، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   سنتوں کی قضا کے متعلق قولِ فیصل و تحقیقِ انیق بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:تحقیق مقام و تنقیح مرام  یہ ہے کہ حقیقۃ ًقضانہیں ،مگر فرض یا واجب کی،الاداء فی محل اداء النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم داخل فی مطلق السنۃ فما ادی فی غیر المحل لا یکون سنۃ فلا یکون قضاء اذ القضاء مثل الفائت بل عینہ عندالمحققین نعم ماعین لہ النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم محلا بعد فوتہ فیقع سنۃ فیکون قضاء حقیقۃ،یعنی حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی ادائیگی کے محل میں ادا مطلق سنت کو شامل ہے، لہٰذا جو غیرمحل میں ادا ہوں گی ،وہ سنت ہی نہیں ہوں گی،اس لیے قضا بھی نہیں کہلائیں گی،کیونکہ قضاء فوت شدہ کی مثل ،بلکہ محققین علماء کے ہاں عینِ نماز ہوتی ہے،ہاں اپنے محل سے فوت  ہونے کے بعد جس کا وقت خود نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے معین فرمادیا وہ بطورِسنت ادا ہوگی اور قضا بھی حقیقی ہوگی۔۔۔باقی نوافل وسنن اگرچہ مؤکدہ ہوں ،مستحق قضا نہیں کہ شرعاً لازم ہی نہ تھے ،جو بعدِ فوت ذمّہ پرباقی رہیں ۔۔۔مگر بعض جگہ بر خلافِ قیاس ،نص وارد ہوگیا ،وہی سنتیں جو ایک محل میں ادا کی جاتی تھیں ،بعد ِفوت دوسری جگہ ادا فرمائی گئیں ،جیسے فجر کی سنتیں  جبکہ فرض کے ساتھ فوت ہوں ،بشرطیکہ بعد بلندی آفتاب وقبل از زوال ادا کی جائیں یا ظہر کی پہلی چار سنتیں جو فرض سے پہلے نہ پڑھی ہو،تو بعدِ فرض بلکہ مذہبِ ارجح پر بعد سنتِ بعد یہ کے پڑھیں بشرطیکہ ہنوز  وقت ظہر باقی ہو ’’نص علی کل ذلک فی غیر ما کتاب کردالمحتار‘‘ان شرائط کےساتھ جب یہ دونوں سنتیں بعدِ فوت پڑھی جائیں گی ،تو  بعنیہا وہی سنتیں ادا ہوں گی جو فوت ہوئی تھیں اور ان کے سوا اور فوت شدہ سنتیں یا یہی سنتیں بے مراعات ان شرائط کے  پڑھی جائیں گی، تو صرف نفل ہوں گی،  نہ سنت فائۃ۔ (فتاوی رضویہ ، جلد 8، صفحہ 147، 148، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   اسی طرح ایک اور مقام پر امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:’’اور جس کے فرض وسنت دونوں فوت ہوئے ہوں وہ طلوع کے بعد استواء سے پہلے فرض وسنت دونوں کی قضا کرے۔‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد 8، صفحہ 153، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   خلاصہ یہ کہ  سنت فجر کی قضا خلاف ِ قیاس حدیث پاک سے ثابت ہے ، لہٰذا جب قضا ثابت ہے ، تونیت بھی قضا کی ہی کی جائے گی ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم