Fajar Ke Waqt Mein Witar Ya Koi Wajib Ada Karsakte Hain ?

فجر کے وقت میں وتر یا کوئی واجب ادا کر سکتے ہیں ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: 7110 Pin-

تاریخ اجراء: 15جمادی الاولی1444ھ10دسمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ فجر کے وقت میں سنتِ فجر کے علاوہ کوئی نفل نہیں پڑھ سکتے، تو کیا اس وقت وتر یا کوئی اور واجب ادا کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      فجر کے وقت میں سنتِ فجر کے علاوہ کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔رہا واجب! تو ایسا واجب جو نفل کے حکم میں ہے، اسے بھی فجر کے وقت میں پڑھنا جائز نہیں، البتہ جو فرض کے حکم میں ہے، اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ واجب کی دو قسمیں ہیں: (۱) واجب لعینہ۔ (۲) واجب لغیرہ۔

   (۱) واجب لعینہ: جو اللہ عزوجل کے واجب کرنے سے واجب ہوا، اس میں بندے کا کوئی دخل نہ ہو۔ جیسے وتر، نمازِ جنازہ اور سجدہ تلاوت، ایسا واجب، فرض کے حکم میں ہوتا ہے اور اسے فجر کے وقت میں ادا کیا جا سکتا ہے۔

   (۲) واجب لغیرہ: جو فی نفسہ واجب نہ ہو، بلکہ بندے نے خود اپنے اوپر واجب کیا ہو۔ جیسے منت اور طواف کے نوافل، ایسی نفل نماز جسے بندے نے فاسد کر دیا ہو، اس کی قضا۔ یہ نوافل کے حکم میں ہیں، لہذا دیگر نوافل کی طرح انہیں بھی فجر کے وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے۔

   صحیح بخاری شریف میں ہے: ’’نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن الصلوۃ بعد الصبح حتی تشرق الشمس وبعد العصر حتی تغرب‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے طلوعِ سحر کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک (نفل)نماز سے منع فرمایا ہے۔(صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ، باب الصلوۃ بعد الفجر۔۔الخ، جلد 1، صفحہ 82، مطبوعہ  کراچی)

      حاشیہ طحطاوی میں ہے: ’’ويكره التنفل بعد طلوع الفجراي قصدا،۔۔۔ ومثل النافلة في هذا الحكم ما وجب بايجاب العبد ويقال له الواجب لغيره كالمنذور وركعتي الطواف وقضاء نفل افسده، اما الواجب لعينه وهو ما كان بايجاب اللہ تعالى ولا مدخل للعبد فيه ۔۔۔ فلا كراهة فيه ‘‘ ترجمہ:طلوعِ فجر کے بعد قصداً نوافل شروع کرنا مکروہ ہے اور اس حکم میں وہ واجب بھی نفل کی مثل ہے، جو بندے کے ایجاب سے واجب ہوا ہو اور اسے واجب لغیرہ کہتے ہیں، جیسے منت، طواف کی دو رکعات اور نفل کی قضا، جسے فاسد کر دیا تھا، بہرحال واجب لعینہ جسے اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہو، اس میں بندے کا دخل نہ ہو، اس کی ادائیگی میں کوئی کراہت نہیں۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 188، مطبوعہ بیروت)

         در مختار میں ہے: ’’(وکرہ نفل) قصداً ولو تحیۃ المسجد (وکل ما کان واجباً لغیرہ) وھو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور ورکعتی طواف وسجدتی سھو والذی شرع فیہ ثم افسد و) لو  سنۃ الفجر (بعد صلاۃ فجر وعصر، لا) یکرہ (قضاء فائتۃ و) لو وتراً او (سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ، وکذا) الحکم من کراھۃ نفل و واجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ (بعد طلوع فجر سوی سنتہ)‘‘ ترجمہ: بعد فجر و عصر قصداً نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگرچہ تحیۃ المسجد ہو، یونہی ہر واجب لغیرہ کہ جس کا وجوب  بندےکے فعل پر موقوف ہو، جیسے منت، طواف کی رکعات اور سجدہ سہو اور ایسی نفل نماز جسے شروع کر کے فاسد کر دیا ہو، اگرچہ سنت فجر ہو، (لیکن) طلوعِ فجر کے بعد سنت فجر، یونہی فوت شدہ نمازوں کی قضا مکروہ نہیں، اگرچہ وتر ہو یا سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ، کراہت کا یہ حکم نوافل اور واجب لغیرہ میں ہے، نہ کہ فرض اور واجب لعینہ میں۔

         اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’(وکل ما کان واجباً) ای: ما کان ملحقاً بالنفل، بان ثبت وجوبہ بعارض بعد ما کان نفلاً۔۔۔ مثلاً المنذور یتوقف علی النذر ورکعتا الطواف علی الطواف وسجدتا السھو علی ترک الواجب الذی ھو من جھتہ‘‘ ترجمہ: ہر وہ واجب جو ملحق بالنفل ہو، بایں طور کہ اس کا وجوب کسی عارض کی بِناپر ہو بعد اس کے کہ وہ نفل تھا،۔۔ مثلاً :منت والی عبادت منت ماننے پر، طواف کے نوافل طواف کرنے پر  اور سجدہ سہو انسان کی طرف سے واجب ترک کرنے پر موقوف ہوتا ہے‘‘۔(ملتقطاً ازدر مختار و رد المحتار، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 44، مطبوعہ پشاور)

   تبیین الحقائق میں واجب لغیرہ کے اس وقت میں ادا نہ کرنے کی علت کچھ یوں بیان کی گئی ہے:’’کل ما کان واجباً لغیرہ ۔۔۔ ملحق بالنفل حتی لا یصلیھا فی ھذین الوقتین، لان وجوبھا بسب من جھۃ فلا یخرج من ان یکون نفلاً فی حق الوقت‘‘ ترجمہ:  ہر واجب لغیرہ نفل سے ملحق ہے، حتی کہ اسے دو اوقات (بعد طلوعِ فجر و نماز عصر) نہیں پڑھیں گے، کیونکہ ان (نوافل) کا وجوب کسی عارض کے سبب ہے، لہذا یہ وقت کے حق میں نفل ہونے سے نہیں نکلیں گے۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 87، مطبوعہ  ملتان)

         علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ سجدہ تلاوت کے واجب لعینہ ہونے کے متعلق تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وان کان بفعلہ، لکنہ لیس اصلہ نفلاً، لان التنفل بالسجدۃ غیر مشروع، فکانت واجبۃ بایجاب اللہ تعالی لا بالتزام العبد‘‘ ترجمہ: (سجدہ تلاوت) یہ اگرچہ اپنے فعل (یعنی آیت سجدہ پڑھنے) کی وجہ سے واجب ہوا، لیکن یہ فی نفسہ نفل نہیں تھا، کیونکہ نفلی سجدہ مشروع نہیں ہے، تو گویا یہ فی نفسہ اللہ تعالیٰ کے واجب کرنے سے ہی واجب ہوا ہے، بندے کے لازم کرنے سے نہیں۔(در مختارو ردالمحتار، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 44، مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم