Fairness Cream Ya Body Lotion Laga Kar Namaz Parhne Ka Hukum

 

فئیرنیس کریم یا باڈی لوشن لگا کر نماز پڑھنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3365

تاریخ اجراء: 09جمادی الاخریٰ 1446ھ/12دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کوئی بھی فئیر نیس کریم یا باڈی لوشن لگا کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فئیر نیس کریم یا باڈی لوشن لگا کر نماز پڑھ سکتے ہیں ،جبکہ اس کایقینی طورپرناپاک ہونامعلوم نہ ہو، کیونکہ کریم وغیرہ میں کسی ناپاک چیز کے ملے ہونے کا یقینی علم نہ ہو تو اسے استعمال  کرنے کی اجازت ہوتی ہے ،اوراگراس کاجرم نہ بنے ، محض چکنائی ہی ہوتواس کے جسم پرلگے ہونے کی صورت میں وضووغسل بھی ہوجاتاہے۔

   ہاں!اگر یقینی  طورپرمعلوم ہو کہ اس میں کوئی ناپاک چیز ملی ہوئی ہے ، تو اب اسے استعمال کرنا اور لگانا ، جائز نہیں ، اوراس کولگاکرنمازپڑھی تو  اس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ :

   اگرنجاستِ غلیظہ ہے تودرہم سے زیادہ لگے ہونے کی صورت میں تونمازہوگی ہی نہیں اوراسی حالت میں قصدا نماز پڑھناگناہ ہے اوردرہم کی مقدارلگی ہوتونمازمکروہ تحریمی  ہوگی یعنی اس کادہراناواجب اورقصدااس حالت میں نماز پڑھناگناہ  اوردرہم سے کم لگی ہوتواسی حالت میں نماز ادا کرنا،خلاف سنت اوراس کااعادہ بہتر۔اوراگرنجاستِ خفیفہ ہے تو اگربدن کے جس عضو یاکپڑے کے جس حصے پرلگی ہے ،اس کی چوتھائی سے کم ہے تو معاف اورچوتھائی یااس سے زیادہ  پرلگی ہے توبغیردھوئے نمازنہیں ہوگی۔

   الاشباہ والنظائر میں ہے’’شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ ‘‘ ترجمہ :ناپاکی کے موجود ہونے میں شک ہو،تو اصل طہارت (پاکی) کا باقی رہنا ہے۔ (الاشباہ و النظائر،ص61،مطبوعہ: کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ شریعتِ مطہرہ میں طہارت وحلت اصل  ہیں اور ان کا ثبوت خود حاصل کہ اپنے اثبات میں کسی دلیل کا محتاج نہیں اور حرمت ونجاست عارضی کہ ان کے ثبوت کو دلیل خاص درکار اور محض شکوک وظنون سے ان کا اثبات ناممکن کہ طہارت وحلت پر بوجہ اصالت جو یقین تھا اُس کا زوال بھی اس کے مثل یقین ہی سے متصور ، نراظن لاحق یقین سابق کے حکم کو رفع نہیں کرتا یہ شرع شریف کا ضابطہ عظیمہ ہے ، جس پر ہزارہا احکام متفرع۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد4،صفحہ476،477،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   مراقی الفلاح میں ہے”بقاء دسومۃ الزیت ونحوہ لا یمنع لعدم الحائل“ترجمہ: تیل کی چکنائی اور اس جیسی دوسری چیزوں کا باقی رہنا (طہارت میں) رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ ایسی چیزیں پانی کے جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہوتیں ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح  ، ص62 ، مطبوعہ :کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”نَجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زِیادہ لگ جائے ،تو اس کا پاک کرنا فرض ہے، بے پاک کیے نماز پڑھ لی ، تو ہو گی ہی نہیں اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا اور اگر بہ نیتِ اِستِخفاف ہے تو کفر ہوا اور اگر درہم کے برابر ہے تو پاک کرنا واجب ہے کہ بے پاک کیے نماز پڑھی تو مکروہ ِتحریمی ہوئی یعنی ایسی نماز کا اِعادہ واجب ہے اور قصداً پڑھی تو گنہگار بھی ہوا اور اگر درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنّت ہے، کہ بےپاک کیے نماز ہوگئی مگر خلافِ سنّت ہوئی اور اس کا اِعادہ بہتر ہے ۔۔۔ نَجاستِ خفیفہ کا یہ حکم ہے کہ کپڑے کے حصہ یا بدن کے جس عُضْوْ میں لگی ہے، اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے (مثلاً دامن میں لگی ہے ، تو دامن کی چوتھائی سے کم، آستین میں اس کی چوتھائی سے کم ، یوہیں ہاتھ میں ہاتھ کی چوتھائی سے کم ہے) ، تو معاف ہے کہ اس سے نماز ہو جائے گی اور اگر پوری چوتھائی میں ہو ، تو بے دھوئے نماز نہ ہو گی ۔“ (بہارِ شریعت ، ج1 ،حصہ2 ، ص389 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم