Ek Shehar Ke Mukhtalif Mohalle Ek Jagah Ke Hukum Mein Hain

ایک شہر کے مختلف محلے ایک جگہ کے حکم میں ہیں

مجیب:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:116

تاریخ اجراء: 14صفرالمظفر1443ھ/22ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں بارہ ماہ کے مدنی قافلے میں ہوں ،مجلس ہمیں کسی شہر میں پندرہ دن سے زائد عرصہ کے لیے بھیجتی ہے،ایک مسجد میں تین دن ٹھہرنا ہوتا ہے، پھر اسی شہر کے دوسرے محلےو علاقے کی مسجد میں تین دن،تو کیا ہم وہاں پر مقیم ہوتے ہیں یا مسافر؟برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ مقیم ہیں۔اصول یہ ہے کہ ایک شہر کے مختلف محلے ایک جگہ کے حکم میں ہیں ، لہٰذاآپ کی اگر کسی شہر میں پندرہ یا اس سے زائددن ٹھہرنے کی نیت ہو، اگر چہ اس دوران اس کے مختلف محلوں میں سفر کرتے رہیں۔ جیسا کہ مدنی قافلے میں ہوتا ہے، تو آپ اس شہر میں مقیم ہوں گے ۔

   بدائع الصنائع میں ہے:”إذا نوی المسافر الإقامۃ خمسۃ عشر یوما فی موضعین فان کان مصراً واحداً أو قریۃ واحدۃ  صار مقیماً، لانھما متحدان حکماً“ ترجمہ: مسافر نے  دو مقامات پر پندرہ دن رہنے کی نیت کی،اگر وہ ایک ہی شہر یا بستی (میں) ہو،تو وہ مقیم ہوجائے گا، کیونکہ یہ دونوں مقامات حکماً ایک ہیں۔(بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ483، مطبوعہ  کوئٹہ)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”ولا یزال علی حکم السفرحتی ینوی الاقامۃ فی بلدۃ او قریۃ خمسۃ عشر یوما او اکثر“ترجمہ:مسافر سفر کے حکم میں رہتا ہے ،جب تک کہ وہ کسی شہر یا بستی میں پندرہ یا اس سے زائد دن رہنے کی نیت نہ کرلے۔(فتاویٰ عالمگیری،جلد1،صفحہ154،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   بہار شریعت میں ہے:”دو جگہ  پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور دونوں مستقل ہوں، جیسے مکہ و منٰی تومقیم نہ ہوا اور ایک دوسرے کی تابع ہو جیسے شہر اور اس کی فنا تو مقیم ہوگیا۔ “(بہار  شریعت ،جلد1،صفحہ745، مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم