Ek Rukun Mein 3 Martaba Paon Utha Kar Khujane Se Namaz Ka Hukum

ایک رکن میں 3 مرتبہ پاؤں اٹھا کر کھجانے سے نماز کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8267

تاریخ اجراء:29 شعبا ن المعظم1444ھ/22 مارچ 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ہم نے علمائے کرام سے سُنا ہے کہ نماز کے ایک  رکن میں تین دفعہ ہاتھ اٹھا کر استعمال کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ،تو کیا اگر کوئی شخص نماز کے ایک رکن میں تین دفعہ  پاؤں  اٹھا کر حرکت دیتا ہے، مثلاً: ابھی رمضان المبارک میں تراویح کے دوران یہ مسئلہ زیادہ در پیش ہوتا ہے کہ مچھر وغیرہ کی وجہ سے بعض لوگ بار بار پاؤں اٹھا کر خارش کرتے ہیں یا مچھر کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں ، تو کیا اس طرح تین دفعہ پاؤں اٹھا کر خارش وغیرہ کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اولاً  مچھر  وغیرہ سے بچاؤ کا کوئی اہتمام کیا جائے ،تاکہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رہے  ، پھر بھی اگر مچھر کے کاٹنے سے خارش ہو، توضبط کرنے کی کوشش کرے   اور نہ ہو سکے یا  اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو،تو  ایک رکن میں صرف دوبار  تک کھجانے کی اجازت ہے،تیسری بار کھجانے سے نماز فاسد ہوجائے گی، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز میں مچھر بھگانے یا خارش وغیرہ کرنے کی غرض سے ایک رُکن میں  تین بار   پاؤں اٹھا کر حرکت  دے ، تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی  ۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ نماز میں عملِ کثیر  ( ایسا کام جس  کے کرنے والے کودورسے دیکھنے سے ایسالگے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ،  بلکہ غالب گمان بھی  ہوکہ نمازمیں نہیں ہے،  تب بھی عمل کثیرہے   ) سے نماز فاسد ہو جاتی ہے   اور  عملِ کثیر کا تعلق صرف  ہاتھوں سے ہی نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے  ، ہاتھوں کے ذریعے بھی عملِ کثیر ہو سکتاہے   ،  منہ اور  دانتوں کے ذریعے بھی  اور پاؤں کے ذریعے بھی  (  جیسا کہ فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے )، تو  نمازی کسی بھی انداز سے عملِ کثیر کا ارتکاب کرے  ، اس کی نماز فاسد ہو جائے گی  ، لہٰذا اگر کسی نے ایک ہی رکن میں تین دفعہ پاؤں اٹھا کر خارش کی یا مچھر بھگانے  کے لیے تین دفعہ پاؤں اٹھا کر حرکت دی ، تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔

   عملِ کثیر کی تعریف  و حکم کے متعلق درمختار میں ہے  :(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لاصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل ترجمہ : ہر عملِ کثیر یعنی جو کام افعالِ نماز میں سے نہ ہو اور نہ ہی اس کے ذریعے نماز کی اصلاح مقصود ہو ،  نماز کو فاسد کر دیتا  ہے اور عملِ کثیر کی تعریف و تشریح کے متعلق پانچ اقوال ہیں ،صحیح ترین قول یہ ہے کہ جس کے کرنے والے کو  دور سے دیکھنے  والا  بغیر شک و شبہ کے  سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں   اور اگر شک کرے کہ نماز میں ہے یا نہیں ، تو وہ عملِ قلیل ہے۔( درمختار ، کتاب الصلاۃ ، جلد2 ،  صفحہ 464 ، 465 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز فاسد ہونے کے متعلق علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ (سالِ وفات:956ھ / 1049ء )  لکھتےہیں:”(ولو حك)المصلي (جسده مرة أو مرتين) متواليتين (لا تفسد) لقلته (وكذا)لا تفسد (إذا فعل) الحك (مرارا غير متواليات) بأن لم يكن في ركن واحد (ولو فعل) ذلك (مرارا متواليات تفسد) لأنه عمل كثير“ترجمہ :  اور اگر نمازی نے اپنے جسم کو مسلسل دو مرتبہ کھجایا ، تو عملِ قلیل ہونے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی ، اسی طرح جب یہ کھجانا دو سے زائد  چند بار  ہو ، مگر مسلسل نہ ہو ، یعنی ایک رُکن میں نہ ہو  ، تب بھی نماز نہیں ٹوٹے گی اور اگر   مسلسل یعنی ایک ہی رکن میں دو بار سے زائد کھجایا ، تو نماز فاسد ہو جائے گی  ، کیونکہ یہ عملِ کثیر ہے ۔(غنية المستملي شرح منیۃ المصلی  ، مفسدات الصلاۃ ، صفحه 387 ، مطبوعه لاهور )

   اگر کسی نے ایک رکن میں تین بار پاؤں اٹھا کر استعمال کیا  ، تو عملِ کثیر کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو جانے کے متعلق  منیۃ المصلی مع حلبۃ المجلی،محیطِ برہانی ، عالمگیری وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے ، واللفظ للاوّل :إن ‌حرك رجليه قليلاً لا ‌تفسد صلاته، وإن فعل ذلك كثيراً ‌تفسد،   وکذا  فیما ینبغی اذا حرک رجلا واحدۃ کثیرا ، وھذا القول الاخیر أوجہ وھو یتفرع علی تفسیر الکثیر بما  لو نظر الیہ الناظر تیقّن انّہ  لیس فی الصلاۃ ترجمہ: اگر کسی نے نماز میں اپنے  دونوں پاؤں کو قلیل   ( یعنی ایک یا دو دفعہ ) حرکت دی ، تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی  اور اگر زیادہ بار حرکت دی ، تو نماز فاسد ہو جائے گی  ، یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب ایک ہی پاؤں  کو زیادہ ( یعنی  تین یا اس سے زیادہ  دفعہ)  حرکت دی  اور یہ حکم عملِ کثیر کی اس تعریف " جس کام کے کرنے سے( دور سے ) دیکھنے والا یقین کر لے کہ  یہ شخص نماز میں نہیں ہے "  سے متفرع ہوا ہے ۔( حلبۃ المجلی مع منیۃ المصلی ، کتاب الصلاۃ ، فصل فیما یفسد  الصلاۃ ، جلد 2 ، صفحہ 410 ، مطبوعہ بیروت )

   عملِ کثیر کا تعلق صرف ہاتھوں  سے ہی نہیں ،  بلکہ نماز میں کسی بھی انداز میں عملِ کثیر کا ارتکاب  نماز کو فاسد کر دیتا ہے  ، فقہائے کرام نے   ہاتھوں کے علاوہ مختلف اعضا کے ذریعے عملِ کثیر کی صورتیں بیان فرمائیں ، چنانچہ محیطِ برہانی میں ہے:إن حرك رجليه قليلاً لا تفسد صلاته، وإن فعل ذلك كثيراً تفسد صلاته، ولو أكل أو شرب عامداً أو ناسياً فسدت صلاته،  لأن هذا ليس من أعمال الصلاة وهو كثير عمل اليد والفم والأسنان وفي الأصل إن كان بين أسنانه شيء فابتلعه لا تفسد صلاته؛ لأن ما بين أسنانه تبع لريقه، ولهذا لا يفسد به الصوم قالوا: وهذا إذا كان ما بين أسنانه قليلاً دون الحمصة ،  لأنه يبقى بين الأسنان، فأما إذا كان أكثر من ذلك تفسد صلاتهترجمہ : اگر کسی نے نماز میں اپنے پاؤں کو کم حرکت دی ( ایک یا دو دفعہ ) ، تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی  اور اگر یہ زیادہ دفعہ کیا ، تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر کسی نے جان بوجھ کر یا بھولے سے کھایا پیا ، تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی ، اس لیے کہ یہ افعالِ نماز میں سے نہیں  ہے اور  یہ ہاتھ ، منہ اور دانتوں کا عملِ کثیر ہے  اور کتاب الاصل میں ہے :  اگر دانتوں کے درمیان کوئی چیز ہو اور نمازی اس کو نگل لے ، تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی ، کیونکہ جو چیز  دانتوں کے درمیان پھنس جائے وہ تھوک کے تابع ہوتی ہے ، اسی وجہ سے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، فقہائے کرام فرماتے ہیں  یہ عدمِ فساد کا حکم تب ہے جب وہ چیز  چنے  کی مقدا رسے کم ہو  ، اس لیے کہ اتنی کم مقدار دانتوں میں رہ ہی جاتی ہے  ، البتہ اگر مقدار زیادہ ہو ، تو نماز فاسد ہو جائے گی  ( کیونکہ نماز میں زیادہ مقدار کا نگل جانا عملِ کثیر ہوگا( محیطِ برھانی ، کتاب الصلاۃ ، جلد 1 ، صفحہ  396 ، مطبوعہ بیروت )

   سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ  نماز میں بار بار خارش ہو رہی ہو  ، تو کیا کرے ،آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواباً ارشاد فرمایا :”ضبط کرے، اور نہ ہوسکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو ،توکھجالے ،  مگر ایک رکن  ، مثلاً قیام یا قعود یارکوع یاسجود میں تین بار نہ کھجاوے ،  دوبارتک اجازت ہے۔ “(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ384،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم