Eid Ki Namaz Mein Muqtadi Ki Kuch Takbeerain Reh Jayen Tu Namaz Kaise Ada Kare?

عید کی نماز میں مقتدی کی کچھ تکبیریں رہ جائیں ،تو نماز کیسے ادا کرے

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-10682

تاریخ اجراء: 11رمضان المبارک1441ھ/05مئی2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں  کہ اگر کوئی شخص نماز عید  کی پہلی رکعت  کی زائد تکبیروں میں سے ایک یا دوتکبیروں کےبعدشامل ہو،تو وہ شخص یہ تکبیریں کب کہے گا ؟اوراگر  اس کی تینوں تکبیریں رہ جائیں اور امام صاحب نےقراءت شروع  کردی ہو یاامام صاحب کے رکوع میں جانے کے بعد شامل ہو ، تو زائد تکبیریں کب کہے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی  شخص نماز عید میں اس وقت شامل ہو، جب امام صاحب پہلی رکعت کی ایک ،دو یا تینوں تکبیریں کہہ چکے ہوں، تویہ شخص نمازشروع کرنے کے بعد پہلےاپنی رہ جانے والی زائد تکبیرات کہے گا ،اگرچہ امام نے قراءت شروع کردی ہو ،تکبیرات کہنے کےبعد پھر امام کی پیروی کرےگا ،یعنی پھر خاموش ہو کر قراءت سنےگا ۔

    اگر امام صاحب  کے رکوع میں جانے کے بعد شامل ہوااوراسے ظن غالب ہےکہ وہ قیام کی حالت میں زائدتکبیر ات  کہہ کر امام کےساتھ رکوع میں مل جائےگا،تو قیام کی حالت میں تکبیریں کہے ،پھر رکوع میں شامل ہوجائے اور اگراسے ظن غالب ہوکہ  زائد تکبیریں  کہنےسے پہلے امام رکوع سےکھڑاہوجائےگا،تو قیام کی حالت میں تکبیریں نہ کہے ،بلکہ رکوع میں جاکر بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیریں کہے،پھر اگر امام تکبیرات عید مکمل کرنےسے پہلے رکوع سےکھڑا ہوجائے،تواب امام کی پیروی کرتاہوا رکوع سے کھڑاہوجائے،جو تکبیریں رہ گئیں ، وہ ساقط ہوجائیں گی ۔

   درمختار میں ہے :”ولو ادرک المؤتم الامام فی القیام بعد ماکبر ،کبر فی الحال برأی نفسہ لانہ مسبوق “یعنی اگر مقتدی نے امام کو قیا م میں تکبیر کہنےکےبعد پایا تو وہ فورا اپنی رائے کےمطابق تکبیر کہےگا کیونکہ یہ مسبوق ہے۔

   مذکورہ عبارت کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمۃ رد المحتار میں فرماتےہیں:”وا ن  کان الاما م شرع فی  القرأۃکما فی الحلیۃ “یعنی مقتدی نمازمیں شامل ہوتے ہی اپنی تکبیریں کہےگا ،اگرچہ امام نے قراءت شروع کر دی ہو ،جیساکہ حلیہ میں ہے۔

   مزید اسی میں فرماتےہیں :”أما لو أدركه راكعا فإن غلب ظنه إدراكه في الركوع كبر قائما برأي نفسه ثم ركع، وإلا ركع وكبر في ركوعه خلافا لأبي يوسف ولا يرفع يديه لأن الوضع على الركبتين سنة في محله، والرفع لا في محله وإن رفع الإمام رأسه سقط عنه ما بقي من التكبير لئلا تفوته المتابعة ولو أدركه في قيام الركوع لا يقضيها فيه لأنه يقضي الركعة مع تكبيراتها فتح وبدائع“یعنی: اگر  اس نے امام کو رکوع میں پایا اور اسے ظن غالب ہےکہ وہ امام کو رکوع میں پالے گا تو حالت قیام میں اپنی رائے کے مطابق  تکبیرات عید کہے ،ورنہ رکوع کرے اور رکوع میں تکبیریں کہے ،بخلا ف امام ابو یوسف کے اور رکوع میں تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ بلند نہیں کرےگا،  کیونکہ رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھناسنت ہے ،ہاتھ بلند کرنےکا یہ محل نہیں ہےاور اگر امام رکوع سے اٹھ جائے،تو باقی تکبیرت ساقط ہوجائیں گی ، تاکہ امام کی متابعت فوت نہ ہو اور اگر اس نے امام کورکوع سے اٹھنے کے بعدپایا تو اب تکبیریں نہیں کہےگا، کیونکہ ( بعد میں ) وہ تکبیرات سمیت اس رکعت کی قضا کرے گا ۔ (درمختار مع رد المحتار،جلد 3،صفحہ 64، مطبوعہ  کوئٹہ)

   فتاویٰ ہندیہ میں ہے :”ولو انتهى رجل إلى الإمام في الركوع في العيدين فإنه يكبر للافتتاح قائما فإن أمكنه أن يأتي بالتكبيرات ويدرك الركوع فعل ويكبر على رأي نفسه وإن لم يمكنه ركع واشتغل بالتكبيرات عند أبي حنيفة ومحمد  رحمهما الله تعالى هكذا في السراج الوهاج ، ولا يرفع يديه إذا أتى بتكبيرات العيد في الركوع ، كذا في الكافي ، ولو رفع الإمام رأسه بعدما أدى بعض التكبيرات فإنه يرفع رأسه ويتابع الإمام وتسقط عنه التكبيرات الباقية ، كذا في السراج الوهاج ، ولو أدركه في القومة لا يقضي فيها ؛ لأنه يقضي الركعة الأولى مع التكبيرات“یعنی :اگر کسی نے امام کو عیدین کے رکوع میں پایا تو تکبیر تحریمہ کہہ کرنماز شروع کرے، پھر ا گر ممکن ہوتو کھڑے ہونے کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ لےگا  اور رکوع میں شامل ہوجائےگا تو ایسا ہی کرے اور تکبیرات اپنی رائے  کےمطابق کہے اور اگرممکن نہ ہو تو وہ رکوع میں جائےاور تکبیرات کہے امام اعظم اورامام محمد کے نزدیک ،اسی طرح السراج الوھاج  میں ہےاورجب وہ رکوع میں تکبیر کہےگا تو اپنے ہاتھوں کو بلند نہیں کرےگا،اسی طرح کافی میں ہے اور اگرمقتدی کے کچھ تکبیریں پڑھنے کےبعد  امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا،تویہ بھی سر اٹھالےاور امام کی پیروی کرے ، باقی تکبیرات ساقط ہوجائیں گی،اسی طرح  السراج الوھاج میں ہے اور اگر اس نےامام  کو قومہ میں پایا تو اب وہ تکبیرات نہ کہے ، کیونکہ ( بعد میں ) وہ تکبیرات سمیت اس رکعت کی قضا کرے گا ۔(فتاوی عالمگیری ،جلد 1،صفحہ 151،مطبوعہ   پشاور )

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتےہیں :”پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کےبعد مقتدی شامل ہوا، تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قراءت شروع کردی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی ہو ں ،اور اس  نےتکبیریں نہ کہی کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کےساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پالےگا ،تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے،ورنہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں  جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے ،پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نےسر اٹھا لیاتوباقی ساقط ہوگئیں ۔“ (بھارشریعت،جلد 1،صفحہ 782،حصہ ب ،مکتبۃالمدینہ کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم