Dosri Rakat Sana Se Shuru Ki To Kya Hukum Hai?

دوسری رکعت کے شروع میں ثنا پڑھ لینے کا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12609

تاریخ اجراء:25جمادی الاولیٰ 1444ھ/20دسمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے فرضوں کی دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ سے پہلے ثناء پڑھ لی، تو کیا سجدہ سہو کرنا ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پہلی بات یہ ہے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق ہر رکعت کا ابتدائی مقام سورۂ فاتحہ سے پہلے مقامِ ثنا ہے ،البتہ ثنا پڑھنا صرف فرض ،واجب و تمام نوافل(بشمول سننِ مؤکدہ و غیر موکدہ) کی پہلی رکعت میں مسنون اور سننِ مؤکدہ کے علاوہ دیگر نوافل کی تیسری رکعت کے شروع میں مستحب ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ دوسری رکعت میں کھڑے ہوتے ہی فوراً قراءت شروع کر دینا واجب نہیں۔

    اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت میں فرض نماز کی دوسری رکعت کے شروع میں سورۂ فاتحہ سے پہلے ثنا پڑھ لی ، تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا اور بغیر سجدۂ سہو کئے نماز ادا ہوجائے گی کہ ثنا پڑھنا مقامِ ثنا میں واقع ہوا ۔ اگرچہ اس موقع پر ثنا پڑھنا مسنون یا مستحب نہیں ،لیکن اس کی وجہ سے کسی واجب کا ترک بھی لازم نہیں آیاکہ سجدۂ سہو واجب قرار دیا جائے،اسی وجہ سے فقہائے کرام نے صراحت فرمائی کہ اگر کسی نے حالتِ قیام میں سورۂ فاتحہ پڑھنے سے پہلے تشہدپڑھ لیا، تو سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔

   ثناء پڑھنا سنت ہے، اس کے متعلق رد المحتار میں ہے:”اما الثناء فھو سنۃ مقصودۃ لذاتھا۔۔۔ فاذا ترکہ یلزم ترک سنۃ مقصودۃ لذاتھا“یعنی ثناء سنتِ مقصودہ ہے ،  جب اس کو ترک کیا ، توسنتِ مقصودہ کا ترک لازم آئے گا۔(رد المحتار،جلد 2 ، صفحہ 232، مطبوعہ:کوئٹہ)

   سنت غیر موکدہ اور نوافل کی تیسری رکعت میں ثنا پڑھنے کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ شمس الدین المعروف ابنِ امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قام من القعدۃ الاولیٰ الی الرکعۃ الثالثۃ فانہ یستحب لہ ان یبتدی الثالثۃ بالاستفتاح والتعوذیعنی جب نمازی سنت غیر موکدہ کے قعدہ اولیٰ کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو، تو اس کےلیے مستحب ہے کہ وہ تیسری رکعت کو ثناء اور تعوذ سے شروع کرے۔(حلبۃ المجلی، جلد2، صفحہ182،مطبوعہ:بیروت)

   قراءتِ فاتحہ سے پہلے کا مقام مقامِ ثنا ہے۔اس کے متعلق تبیین الحقائق،محیطِ برہانی،تاتارخانیہ وحاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے:واللفظ للطحطاوی:”اما قبل القراءۃ فھی محل الثناء“یعنی بہر حال قراءت سے پہلے کا مقام تو وہ محلِ ثنا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، جلد2،صفحہ 151،مطبوعہ:بیروت)

   جب یہ مقامِ ثنا ہے ، تو اس مقام پر ثنا پڑھ لینے سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔اس کے متعلق حلبۃ المجلی میں ہے:”ان ذکر الشیئ فیما ھو محل لہ عینا او حسا لا یوجب سجود السھو“یعنی کسی چیز کو ایسے مقام میں ذکر کرنا جوعیناً یا حساً اس کا محل ہو،یہ سجدۂ سہو کو واجب نہیں کرتا۔(حلبۃ المجلی، جلد 2،صفحہ 446،مطبوعہ:بیروت)

   دوسری رکعت میں کھڑے ہوتے ہی متصلاً قراءت شروع کر دیناواجب نہیں کہ اس سے پہلے ثنا پڑھنے سے ترکِ واجب لازم آئے۔اس کے متعلق مجددِ اعظم امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اما قبلھافلانسلم وجوب القراءۃ متصلۃ بالقیام بل لو بدأ بالثناء کالأولی لم یترک واجبا۔فلیحرر۔قد صرح فی الھندیۃ عن الظھیریۃ :لو قرا التشھد فی القیام ان کان فی الرکعۃ الاولیٰ لا یلزمہ شیئ وان کان فی الثانیۃ الصحیح انہ لایجب“یعنی  بہر حال (دوسری رکعت  میں)قراءت سے قبل (تشہد پڑھنا)توہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ قراءت کا  قیام کے ساتھ متصل ہونا  واجب ہے ،بلکہ اگر کسی نے پہلی رکعت کی طرح(دوسری رکعت بھی ) ثنا سے شروع کی ، تو بھی کوئی واجب ترک نہ ہوگا۔ھندیہ میں ظہیریہ سے نقل کرتے ہوئے صراحت فرمائی:اگر کسی نے قیام میں تشہد پڑھ لیا، تو اگر پہلی رکعت میں پڑھا، تو کوئی چیز لازم نہیں اور اگر دوسری رکعت میں پڑھا، تو صحیح یہ ہے کہ (اس صورت میں بھی کوئی چیز) واجب نہیں۔(جدالممتار،جلد3،صفحہ527،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   مجمع الانھر میں ہے:”(ان تشھد فی القیام او الرکوع او السجود لایجب )لانہ ثناء وھذہ المواضع محل للثناء۔وعن محمد:لو تشھد فی قیامہ قبل قراءۃ الفاتحۃ فلا سھو علیہ وبعدھا یلزمہ سجود السھووھو الاصح کما فی التبیین“یعنی اگر کسی نے قیام، رکوع یا سجود میں تشہد پڑھا، تو سجدۂ سہو واجب نہ ہوگا کیونکہ تشہد ثنا ہے اور یہ مقامات محلِ ثنا ہیں  اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:اگر کسی نے قیام میں فاتحہ کی قراءت سے پہلے تشہد پڑھ لیا، تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں اور فاتحہ کے بعد سجدہ سہو لازم ہوگا اور یہی زیادہ صحیح ہے جیسا کہ تبیین میں ہے۔(مجمع الانھر،جلد1،صفحہ 221،مطبوعہ:کوئٹہ)

   فتاوی ھندیہ میں ہے:”لو قرأ التشھد فی القیام ان کان فی الرکعۃ الاولی لایلزمہ شئ وان کان فی الرکعۃ الثانیۃ اختلف المشائخ فیہ،الصحیح انہ لایجب کذا فی الظھیریۃ ولو تشھد فی قیامہ قبل قراءۃ الفاتحۃ فلاسھو علیہ وبعدھا یلزمہ السھو وھو الاصح لان بعد الفاتحۃ محل قراءۃ السورۃ فاذا تشھد فیہ فقد اخر الواجب وقبلھا محل الثناء“یعنی اگر کسی نے قیام میں تشہد پڑھ لیا،تو اگر اس نے پہلی رکعت میں پڑھا، تو کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور دوسری رکعت میں پڑھا ،تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے ، صحیح یہ ہے کہ سجدۂ سہو واجب نہ ہوگا ،ایسا ہی ظہیریہ میں ہےاور اگر کسی نے قیام میں سورۂ فاتحہ پڑھنےسے پہلے تشہد پڑھ لیا، تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہ ہوگا اور اگر فاتحہ کے بعد پڑھا، تو سجدہ سہو لازم ہوگا  اور یہ زیادہ صحیح ہے ،کیونکہ فاتحہ کے بعد محلِ قراءت ہے ، جب اس نے تشہد پڑھا، تو واجب کو موخر  کردیا اور سورۂ فاتحہ سے پہلے محلِ ثنا ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 140،مطبوعہ:کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”پہلی دو رکعتوں کے قیام میں الحمد کے بعد تشہد پڑھا ،سجدۂ سہو واجب ہے اور الحمد سے پہلے پڑھا،تو نہیں“(بہارِ شریعت، جلد1،صفحہ 713،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم