Doran e Namaz Zakham Se Khoon Chamak Jaye Tu Kya Wazu Toot Jayega ?

دورانِ نماز زخم سے خون چمک جائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13175

تاریخ اجراء: 27جمادی الاولیٰ1445 ھ/12دسمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ نمازی کے ہاتھ میں موجود زخم سے دورانِ نماز فقط خون چمکا ہوتو کیا اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہر وہ خون ناقضِ وضو  ہے جوبدن کے کسی بھی حصہ سےنکل  کر کسی  ایسی جگہ پہنچ جائے جسے وضو یا غسل میں دھویا جاتا ہے۔  پوچھی گئی صورت میں زخم سے خون محض چمکا ہے   ، اپنی جگہ سے بہا نہیں ہے ، لہذا پوچھی گئی صورت میں نمازی کا وضو نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اس کی نماز فاسد ہوگی۔

   فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:وان قشرت نفطۃ و سال منھا ماء او صدید اوغیرہ ان سال عن رأس الجرح نقض وان لم یسل لا ینقض ۔ “یعنی اگر  چھالہ نوچ ڈالا اور اس سے پانی یا کچ لہو وغیرہ نکلا، تو اگر وہ زخم سے بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر نہ بہے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 11، مطبوعہ بیروت)

   تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(و ینقضہ خروج)۔۔۔۔(نجس)۔۔۔۔(منہ)ای من المتوضیء ۔۔۔ ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظھور، و فی غیرھما عین السیلان یعنی باوضو شخص کے جسم سے ہر نکلنے والی نجس چیز وضو کو توڑدیتی ہے ۔۔۔ ۔ ۔ البتہ سبیلین سے نکلنے سے مراد اس نجاست کا فقط ظاہر ہونا ہے جبکہ غیر سبیلین میں اس نجاست کا بہنا مراد ہے۔(تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، ج01،ص285-284،مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   فتاوی رضویہ  میں ہے:چھنکنا یعنی خون و ریم وغیرہ نے اپنی جگہ سے اصلاً تجاوز نہ کیا بلکہ اُس پر جو کھال کا پردہ تھا وہ ہٹ گیا، جس کے سبب وہ شے اپنی جگہ نظر آنے لگی پھر اگر وہ کسی چیز سے مس ہوکر اس میں لگ آئی مثلاً خون چھنکا اُسے انگلی سے چھُوا ، انگلی پر اس کا داغ آگیا یا خلال کیا یا مسواک کی یا انگلی سے دانت مانجے یادانت سے کوئی چیز کاٹی ان اشیاء پر خون کی رنگت محسوس ہوئی یا ناک انگلی سے صاف کی اُس پر سُرخی لگ آئی اور ان سب صورتوں میں اُس ملنے والی شے پر اثر آجانے سے زیادہ خود اُس خون کو حرکت نہ ہوئی تو یہ بھی جگہ سے تجاوز کرنا نہ ٹھہرے گا کہ اُس میں آپ تجاوز کی صلاحیت نہ تھی ۔۔۔۔۔ یہ صورت بالاجماع ناقضِ وضو نہیں ،نہ اس خون وریم کیلئے حکمِ ناپاکی ہے کہ مذہب صحیح ومعتمد میں جو حدث نہیں وہ نجس بھی نہیں ۔(فتاوٰی رضویہ ،ج01 (حصہ الف)،ص370،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   بہار شریعت میں ہے:” خون یا پیپ  یا زرد  پانی کہیں سے نکل کر بہا اور اس بہنے میں ایسی جگہ پہنچنے کی صلاحیت تھی جس کا وُضو یا غسل میں دھونا فرض ہے تو وُضو جاتا رہا اگر صرف چمکا یا اُبھرا اور بہا نہیں جیسے سوئی کی نوک یا چاقو کا کنارہ لگ جاتا ہے اور خون اُبھر یا چمک جاتا ہے یا خِلال کیا یا مِسواک کی یااُنگلی سے دانت مانجھے یا دانت سے کوئی چیز کاٹی اس پر خون کا اثر پایایاناک میں اُنگلی ڈالی اس پر خون کی سُرخی آگئی مگر وہ خون بہنے کے قابل نہ تھا تووُضو نہیں ٹوٹا۔ (بہار شریعت ، ج 01، ص 304، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

   مزید اگلے صفحے پر صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں:”زخم میں گڑھا پڑ گیا اور اس میں سے کوئی رطوبت چمکی مگر بہی نہیں تو وُضو نہیں ٹوٹا۔(بہارشریعت ، ج 01، ص 305، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم