Din Ke Nawafil Mein Imam Qirat Buland Awaaz Se Karega Ya Ahista?

دن کے نوافل میں امام قراءت بلند آواز سے کرےگا یا آہستہ؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Fmd 1458

تاریخ اجراء:24رمضان المبارک1440ھ/30مئی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ دن کے نوافل مثلاًاشراق وچاشت کی نمازیں جماعت سے پڑھی جائیں،توان میں امام جہری قراءت  کرےگایاسرّی؟اگرسرّی قراء ت واجب ہے ، توامام نےاگرجہری کرلی ، توکیاحکم ہے؟

سائل:کاشف(5-C/2،نارتھ کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دن کے نوافل مثلاًاشراق وچاشت وغیرہ میں تلاوت سری طورپریعنی آہستہ آوازمیں کرنا واجب ہے۔اگرامام اِن میں ایک آیت کی مقداربھول کربلندآوازسےتلاوت کرجائے، تواس پرسجدہ سہوواجب ہے۔اگربلاعذرشرعی سجدہ سہونہ کیایاایک آیت قصداً بلندآوازسےپڑھی اگرچہ بربنائے جہالت ہی کیوں نہ ہو،تونمازکااعادہ واجب ہے،البتہ اگرایک آیت سے کم مثلاًایک آدھ کلمہ بآوازِبلندنکل جائے،توراجح مذہب کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    یہاں ایک آیت کی  مقدار وہی ہے جتنی مقدار میں تلاوت  کرلینے سے قراءت کا فرض اداہوجاتا ہے۔اور وہ مقدار کم از کم چھ حروف پر مشتمل دو کلمے ہیں جیسےثُمَّ نَظَرَ تو جس طرح چھ حروف سے کم مقدار میں قرآن پڑھ لینے سے فرض قراءت ادا نہیں ہوتا ،اسی طرح چھ حروف یا اس سے زائد حروف پر مشتمل اگر ایک کلمہ پڑھ لیا،تو محتاط اور راجح ترقول کے مطابق قراءت کا فرض ادا نہیں ہوتا ۔ جیسےمُدْہَآمَّتَانِ کہ اس میں چھ سے زائد حروف ہیں ، مگریہ  فرض قراءت کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ۔

    لہٰذا سری  نماز میں صرف ایک کلمہ مثلاً اَلۡحَمْدُیا اس طرح کا کوئی ایک آدھ کلمہ جہر کے ساتھ پڑھا،تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا ، کیونکہ اتنی مقدار سے قراءت کا فرض بھی ادا نہیں ہوسکتا اوراگردو کلمے جوکم از کم چھ حروف پر مشتمل ہوں ۔ جیسےثُمَّ نَظَرَ یاسورہ فاتحہ میں سے اَلۡحَمْدُ لِلہِکہ یہ بھی دو کلمے ہیں یا اس سے زائد مثلاً اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَجہر کے ساتھ پڑھ لیا،تو سجدہ سہو لازم ہوجائے گا ۔

    علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”(ويجهر الإمام)وجوبا (في الفجر وأولى العشاءين وجمعة وعيدين وتراويح ووتر بعدها)أی فی رمضان (ويسر في غيرهاكمتنفل بالنهار)فإنه يسر“یعنی فجراور مغرب وعشاء کی پہلی دونوں رکعتوں میں اورجمعہ وعیدین وتراویح اوررمضان میں تراویح کے بعدوترکی نمازمیں امام پرجہرواجب ہےاوران کے علاوہ نمازوں میں آہستہ پڑھے گا۔ جیساکہ دن کے نوافل پڑھنے والاآہستہ آوازمیں پڑھے گا۔

(ملتقطااز الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،ج02،ص304-06،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہارِشریعت میں صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”دن کے نوافل میں آہستہ پڑھنا واجب ہے ۔ “

(بھارِشریعت،ج01،ص545،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

    علامہ شیخ ابراہیم حلبی رقمطرازہیں:”لوجهرالإمام فيما يخافت أوخافت فيمايجهر قدر ما تجوز به الصلاة یجب سجود السهو علیہ“ترجمہ:اگرامام نےجوازِنمازکی مقدارسرّی نمازمیں جہرسے یاجہری نمازمیں آہستہ قراءت کی تواس پرسجدہ سہولازم ہوگا۔

(غنیۃالمتملی،فصل فی سجودالسھو،ص457،مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”اگر امام اُن رکعتوں میں جن میں آہستہ پڑھنا واجب ہے ۔ جیسے ظہر و عصر کی سب رکعات اور عشاء کی پچھلی دو اور مغرب کی تیسری اتنا قرآن عظیم جس سے فرض قراءت ادا ہو سکے(اوروُہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مذہب میں ایک آیت ہے) بھول کر بآواز پڑھ جائیگا تو بلاشبہ سجدہ سہو واجب ہوگا، اگر بلا عذرِشرعی سجدہ نہ کیا یا اس قدر قصداً بآواز پڑھا تو نماز کا پھیرنا واجب ہے،اور اگر اس مقدار سے کم مثلاً ایک آدھ کلمہ بآوازِ بلند نکل جائے تو مذہب راجح میں کچھ حرج نہیں۔ ردالمحتار میں ہے۔ الاسرار یجب علی الامام والمنفرد فیما یسرفیہ وھو صلوۃ الظھر والعصر و الثالثۃ من المغرب والاخریان من العشاء و صلاۃ الکسوف والاستسقاء کما فی البحرالخ (یعنی سری نمازوں میں امام اورمنفرد دونوں پر اسرار (سراً قراءت) واجب ہے اور سرّی نمازنمازِ ظہر ،عصر ،مغرب کی تیسری رکعت ،عشاء کی آخری دوکعتیں ،نمازکسو ف اور نماز استسقاء ہیں ۔جیسا کہ بحر میں ہے الخ)

    دُر مختار میں ہے:تجب سجدتان بترک واجب سھواکالجھر فیما یخافت فیہ وعکسہ والاصح تقدیرہ بقدرما تجوز بہ الصلوۃ فی الفصلین ملخصاً(یعنی سہواً ترکِ واجب سے دو سجدے لازم آتے ہیں مثلاً سرّی نماز میں جہراً قراءت کرلے یا اسکا عکس ،اور اصح یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں اتنی قراءت سے سجدہ لازم ہوجائے گا جس سے نماز ادا ہوجاتی ہو ۔ملخصاً

    غنّیہ میں ہے:الصحیح ظاھر الروایۃ وھوالتقدیر بما تجوز بہ الصلوۃ من غیر تفرقۃ لان القلیل من الجھر موضع المخافۃ عفوا الخ صحیح ظاہر الروایۃ میں ہے وہ اتنی مقدار ہے کہ اس کے ساتھ نماز بغیر کسی تفرقہ کے جائز ہوجائے کیونکہ سر کی جگہ جہر ِقلیل معاف ہے الخ حاشیہ شامی میں ہے: صححہ فی الھدایۃ والفتح والتبیین والمنیۃ  الخ وتمامہ فیہ(یعنی اس کو ہدایہ ،فتح، تبیین اورمنیہ میں صحیح کہا ہے الخ اور اس میں تفصیلی گفتگو ہے)تنویر الابصار میں ہے:فرض القرأۃ اٰیۃ علی المذھب(یعنی مذہب مختار کے مطابق ایک آیت کی قراءت فرض ہے)

    بحرالرائق و عالمگیری میں ہے:لا یحب السجود فی العمد و انما یجب الاعادۃ جبرا لنقصانہ(یعنی عمداً (ترک واجب سے) سجدہ سہو واجب نہیں بلکہ اس کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے نماز کا اعادہ ضروری ہے “

(فتاوی رضویہ،ج06،ص251-52،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    ایک اور مقام پر امام اہلسنت سےآیت ما یجوز بہ الصلاۃ سے متعلق سوال ہوا، تو اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ والرضوان نے ارشادفرمایا:”وہ آیت کہ چھ حرف سے کم نہ ہو اور بہت نےاُس کے ساتھ یہ بھی شرط لگائی کہ صرف ایک کلمہ کی نہ ہو تو ان کے نزدیکمُدْہَآمَّتَانِاگرچہ پُوری آیت اور چھ6 حرف سے زائد ہے ،جوازِ نماز کو کافی نہیں۔اسی کو منیہ وظہیریہ وسراج وہاج و فتح القدیر و بحرالرائق و درمختاروغیرہا میں اصح کہااور امام اجل اسبیجابی وامام مالک العلماء ابو بکر مسعود کاسانی نے فرمایا کہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے نزدیک صرفمُدْہَآمَّتَانِسے بھی نمازجائز ہے اور اس میں اصلاً ذکر خلاف نہ فرمایا۔دُرمختار میں ہے”اقلھا ستۃ احرف ولو تقدیرا کلَم یَلِد الا اذا کانت کلمۃ،فالاصح عدم الصحۃ“(یعنی اس آیت کے کم از کم چھ حروف ہوں اگر چہ وُہ لفظاً نہ ہوں، تقدیراً ہی ہوں مثلاًلَم یَلِد (کہ اصل میں لَم یَولِد تھا) مگر اس صورت میں کہ جب وُہ آیت صرف ایک کلمہ پر مشتمل ہو تو اصح عدمِ صحتِ نماز ہے)

ہندیہ میں ہے:”الاصح انہ لا یجوز کذا فی شرح المجمع لابن ملک ،وھکذا فی الظھیریۃ والسراج الوھاج وفتح القدیر۔“(یعنی اصح یہی ہے کہ اس سے نماز جائز نہیں شرح مجمع لابن مالک میں اسی طرح ہے۔ظہیریہ ،السراج ، الوہاج اورفتح القدیر میں بھی یوں ہی ہے)

    فتح القدیر میں ہے:”لو کانت کلمۃ اسماً او حرفاً نحو مُدْہَآمَّتَانِص ق ن فان ھذہ اٰیات عند بعض القراء اختلف فیہ علی قولہ ، والاصح انہ لا یجوز لانہ یسمی عادا لا قارئا“(یعنی اگروُہ آیت ایک کلمہ پرمشتمل ہے خواہ اسم ہو یا حرف مثلاً مُدْہَآمَّتَانِص ، ق ، ن کیونکہ یہ بعض قراء کے نزدیک آیات ہیں ان کے قول پر اس میں اختلاف ہے اور اصح یہی ہے کہ یہ جواز ِ نماز کے لئے کافی نہیں کیونکہ ایسے شخص کو قاری نہیں کہا جاتا بلکہ شمار کرنے والا کہا جاتا ہے۔)

    بحرالرائق میں اسے ذکر کرکےفرمایا:” کذا ذکرہ الشارحون وھومسلم فی ص ، و نحوہ ۔ اما فی مُدْہَآمَّتَانِ فذکر الاسبیجابی وصاحب البدائع انہ یجوز علی قول ابی حنیفۃ من غیر ذکر خلاف بین المشائخ۔“(یعنی شارحین نے اسے یوں ہی بیان کیا ہے اور یہ بات ص وغیرہ میں تو مسلم مگرمُدْہَآمَّتَانِکے بارے میں اسبیجابی اور صاحبِ بدائع نے کہا کہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق یہ جوازِ نماز کے لئے کافی ہے اور انہوں نے مشائخ کے درمیان کسی اختلاف کا ذکر نہیں کیا۔)

بدائع میں ہے:”فی ظاھر الروایۃ قدر  ادنی المفروض  بالاٰیۃ التامۃ طویلۃ  کانت  اوقصیرۃ  کقولہ تعالی مُدْہَآمَّتَانِو ما قالہ  ابوحنیفۃ اقیس ۔ “(یعنی ظاہر الروایۃ کے مطابق فرض قرأت کی مقدار کم ازکم ایک مکمل آیت ہے وہ آیت لمبی ہو یا چھوٹی ۔جیسے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے مُدْہَآمَّتَانِاورامام ابو حنیفہ رحمہ اﷲتعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہی زیادہ قرینِ قیاس ہے)

    اقول:اظہر یہی ہے مگر جبکہ ایک جماعت اُسے ترجیح دے رہی ہے تو احتراز ہی میں احتیاط ہے خصوصاً اس حالت میں کہ اس کی ضرورت نہ ہوگی مگر مثل فجر میں جبکہ وقت قدر واجب سے کم رہا ہو ایسے وقتثُمَّ نَظَرَ کہ بالاجماع ہمارے امام کے نزدیک ادائے فرض کو کافی ہے مُدْہَآمَّتَانِسےجلد ادا ہوجائے گا کہ اس میں حرف بھی زائد ہیں اور ایک مد متصل ہے جس کا ترک حرام ہے ،ہاں جسے یہی یاد ہو اُس کے بارے میں وُہ کلام ہوگا اور احوط اعادہ ۔“

(ملتقطااز فتاوٰی رضویہ ،ج06،ص344،رضا فاؤنڈیشن لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم