Darul Harb Mein Jumma o Eidain Parhne Ka Hukum?

دار الحرب میں جمعہ و عیدین پڑھنے کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6368

تاریخ اجراء:19ربیع الاول1441ھ/17نومبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ دار الحرب میں جمعہ کی ادائیگی کا کیا حکم  ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    فی زمانہ دارالحرب  میں مسلمانوں کی مستقل رہائش، کثیر آبادی،نماز ِ جمعہ کی عمومی ادائیگی اور جمعہ نہ پڑھنے کی صورت میں پیدا ہونے والے مفاسد کے پیش نظر معتمد و مستند علمائے کرام نے شرعی اصولوں میں سے عمومِ بلویٰ اور ازالہ فسادِ مظنون بظنِ غالب کو بنیاد بنا کر مذہبِ امام مالک پر عمل کرنے اور دار الحرب میں دیگر شرائط کی موجودگی میں نمازِ جمعہ و عیدین ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جمعہ و عیدین کے لیے اسلامی شہر ہونا ضروری نہیں۔

    موجودہ زمانے کے اعتبار سے نفسِ حکم بیان کرنے کے بعد  مسئلہ کی مکمل تفصیل یہ ہے کہ جمعہ فرائضِ دینیہ  میں سے اہم ترین فرض ہے۔ دیگر فرائض کی طرح اس کی صحت اورادائیگی کے لیے بھی مخصوص شرائط ہیں کہ اگر وہ پائی جائیں،تو جمعہ درست ہو گا،ورنہ نہیں اور بعض صورتوں میں گناہ بھی ہو گا۔ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس جگہ جمعہ ادا کیا جا رہا ہے،وہ اسلامی شہرہو۔اگر وہ جگہ شہر ہی نہیں یا شہر تو ہے،لیکن اسلامی نہیں،تووہاں جمعہ ادا کرنا اصلِ مذہب کے مطابق درست نہیں اور عملاً یہ ہوگا کہ جہاں جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں،وہاں ظہر کی نماز ادا کرنا فرض ہے،نمازِ ظہر فرض ہونے کے باوجود اس کی جگہ جمعہ ادا کرنے والا تارکِ فرض کہلائے گااور جان بوجھ کر ایک بار بھی فرض ترک کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

    نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہر ہونا ضروری ہے۔چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ،مصنف عبد الرزاق ،السنن الکبریٰ للبیہقی اور شرح مشکل الآثار وغیرہ میں ہے:واللفظ للاول:’’لا جمعة ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا اضحى الا في مصر جامع او مدينة عظيمة‘‘ترجمہ:نمازِ جمعہ،تکبیراتِ تشریق،عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز نہیں ،مگر مصرجامع یا بہت بڑے شہر میں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،ج1،ص439،مطبوعہ،ریاض)

    حاشیہ شرنبلالی اوردر مختار وغیرہ کتبِ فقہ میں ہے:’’شروط الصحة ستة: المصر والجماعة والخطبة والسلطان والوقت والاذن العام‘‘ترجمہ:جمعہ صحیح ہونے کےلئے چھ شرطیں ہیں:شہر،جماعت ،خطبہ،سلطان ،وقت اور اذنِ عام کا ہونا۔

(حاشیہ شرنبلالی مع درر الحکام،ج1،ص136،دار احیاء الکتب)

    اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  ارشادفرماتے ہیں:’’فرضیت وصحت وجوازِ جمعہ،سب کے لئے اسلامی شہر ہونا شرط ہے ، جوجگہ بستی نہیں جیسے بَن، سمندر یا پہاڑیا بستی ہے، مگر شہر نہیں جیسے دیہات یا شہر ہے،مگر اسلامی نہیں جیسے روس، فرانس کے بلاد، ان میں جمعہ فرض ہے، نہ صحیح، نہ جائز،بلکہ ممنوع وباطل وگناہ ہے،اس کے پڑھنے سے فرضِ ظہر ذمہ سے ساقط نہ ہوگا اور شہر کے اسلامی ہونے کے لئے یہ ضرور ہے کہ یا تو فی الحال اس میں سلطنتِ اسلام ہو خود مختار جیسے بحمد اﷲ تعالی  سلطنت عُلیہ عالیہ عثمانیہ ودولتِ خداداد افغانستان ’’حفظھما اللہ تعالی  عن شرورالزمان‘‘ یا کسی سلطنتِ کفر کی تابع جیسے اب چند روز سے سلطنتِ بخارا ’’وحسبنا ﷲ ونعم الوکیل‘‘ اور اگر فی الحال نہ ہو،تو دو باتیں ضرور ہیں: ایک یہ کہ پہلے اس میں سلطنتِ اسلامی رہی ہو، دوسرے یہ کہ جب سے قبضہ کافر میں آئی، شعارِاسلام مثل جمعہ وجماعت واذان واقامت وغیرہا کلاً یا بعضاً برابر اس میں اب تک جاری رہے ہوں،جہاں سلطنت اسلامی کبھی نہ تھی، نہ اب ہے، وہ اسلامی شہر نہیں ہوسکتے،نہ وہاں جمعہ وعیدین جائز ہوں، اگر چہ وہاں کے کافر سلاطین شعائرِ اسلامیہ کونہ روکتے ہوں، اگر چہ وہاں مساجد بکثرت ہوں،اذان واقامتِ جماعت علی الاعلان ہوتی ہو، اگر چہ عوام اپنے جہل کے باعث جمعہ و عیدین بلامزاحمت اداکرتے ہوں جیسے کہ روس،فرانس وجرمن وپرتگال وغیرہا اکثر،بلکہ شاید کل سلطنت ہائے یورپ کا یہی حال ہے۔یونہی اگر پہلے سلطنت اسلامی تھی،پھر کافر نے غلبہ کیا اور شعائرِ کفر جاری کر کے تمام شعائر اسلام یکسر اٹھا دئے، تو اب وہ شہر بھی اسلامی نہ رہے اور جب تک پھر از سر نو ان میں سلطنت اسلامی نہ ہو،وہاں جمعہ و عیدین جائز نہیں ہوسکتے،اگر چہ کفار غلبہ یا فتہ ممانعت کے بعد پھر بطورِ خود شعائر اسلام کی اجازت دے دیں،خواہ ان کافروں سے دوسرے کافر چھین کراجرائے شعائر اسلام کردیں، کہ کوئی غیر اسلامی شہر مجرد جریان شعائر اسلام سے اسلامی نہیں ہوجاتا۔‘‘                      

(فتاوی رضویہ،ج،8،ص377تا379،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    مذکورہ تفصیل سے واضح ہو ا کہ دار الحرب میں جمعہ و عیدین کی نمازادا کرنااصلِ مذہب کے مطابق صحیح نہیں،لیکن دوسری طرف فی زمانہ دار الحرب میں جمعہ و عیدین کے معاملے کا جائز ہ لیا جائے ،تواس میں عموم بلویٰ پایا جاتا ہے ۔عموم بلویٰ کا مطلب یہ ہے کہ ’’عوام و خواص سبھی کسی محظورِ شرعی میں مبتلا ہوں اور دین ،جان ،عقل ،نسب ، مال یا ان میں سے کسی ایک کے تحفظ کے لیےاس سے بچنا مشقت و ضرر کاباعث ہو‘‘اورغیر اسلامی ممالک جو دار الحرب ہیں،ان میں بلا شبہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آبادہیں اور وہاں بغیر کسی پابندی کے دیگر نمازوں کی طرح جمعہ و عیدین کی نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، عوام و خواص، سبھی اس  جماعت میں شریک ہوتے ہیں،شاید ہی کوئی اس بارے میں اصلِ مذہب پر عمل  کرتے ہوئے صرف ظہر کی نماز ادا کرتا ہو، بلکہ اب توجو علماء، مشائخ ،واعظین ،مبلغین وہاں پہ مقیم ہیں یا باہر سے وہاں تشریف لے جاتے ہیں ، وہ بھی جمعہ و عیدین کی جماعتوں میں شریک ہوتے ہیں اوربلا نکیر  خود بھی ان نمازوں میں امامت کرواتے ہیں۔

اب اگرموجودہ دور میں بھی ان ممالک میں  جمعہ و عیدین کی نمازوں کو ناجائز و باطل کہا جائے ،تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہاں لاکھوں کی تعداد میں عوام و خواص جو ظہر کی بجائے جمعہ ادا کرتے ہیں،وہ تارکِ فرض ہیں اور جان بوجھ کر ایک بار بھی فرض کا ترک گناہِ کبیرہ ہے  اور اِن ممالک میں ترکِ ظہر کا معاملہ معلوم و مشہود و مشہور ہے اور حکم شرعی یہ ہے کہ گناہِ کبیرہ کا علانیہ مرتکب فاسقِ معلن اور فاسق معلن کی امامت،شہادت وغیرہ ناجائز ہے۔یوں  عوام وخواص ،سبھی اس محظورِ شرعی میں مبتلا ہیں اور ایسا ابتلاء کہ جس  سے بچنا دشوارتر ہے۔

    نیز دار الحرب کے اندر جمعہ قائم کرنے میں ازالہ فسادِ مظنون بظنِ غالب بھی ہے۔ فساد کا مطلب’’ایسی  ناگوار چیز جو دین، جان،مال، عقل، نسب یا ان میں سے کسی ایک کوضائع کر دے‘‘یہ  فساد اگر کسی جگہ فی الحال پایا جائےیا اس کے پائے جانے کا ظنِ غالب ہو،تو اسے دور کرنا اور روکنا’’ازالہِ فسادِموجود یا مظنون بظنِ غالب ‘‘کہلاتا ہے۔اب اگران ممالک میں عوام کو جمعہ و عیدین کی نمازوں سے بچنے کا حکم دیا جائے یافقط علماء، مشائخ،واعظین اور مبلغین ہی بچیں اور ان نمازوں میں امامت نہ کریں،تو عوام انہیں برا کہیں گے، ان کی غیبتوں میں پڑیں گے،جس سے علماء کی آبرو اور عوام کا دین بے حد متاثر ہو گااور دوسری بات یہ کہ وہاں نمازِ جمعہ و عیدین کے لیے کافی تعداد میں مسلمان مساجد میں جمع ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے بآسانی ان تک دین کا کچھ نہ کچھ ضروری پیغام پہنچ جاتا ہے،جو ان کے حفظِ دین و عقیدہ کا سبب بنتا ہے،توان نمازوں سے بھی روکنے کے سبب لوگ صحیح العقیدہ یعنی اہل سنت کی مساجد چھوڑ کر دوسری مساجد میں چلے جائیں گے،خواہ وہ کسی بھی فرقے کی ہوں اوران  کا امام کیسا ہی ہو،جس کے نتیجے میں فی الحال ان کی نمازیں اور آئندہ ان کاعقیدہ  برباد ہونےکا ظنِ غالب ہے،کیونکہ عموماً لوگ جس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں،اس مسجد کے امام وخطیب کے ہم مسلک اور ہم عقیدہ ہوجاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد مسلمانوں کو مشرک کہنا شروع کردیتے ہیں،تواس سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو گا کہ جس سے لوگوں  کا دین و ایمان ہی برباد ہوجائے گا ۔

    اس صورتِ حال کے پیش نظر معتمد و مستند علماء کرام نے ’’عمومِ بلویٰ‘‘ اور ’’ازالہِ فسادِ مظنون بظنِ غالب‘‘ کو بنیاد بنا کر مذہبِ امام مالک پر عمل کرنے اور دار الحرب میں دیگر شرائط کی موجودگی میں نمازِ جمعہ و عیدین ادا کرنے کی اجازت دی ہے،کیونکہ یہ دونوں شریعت کے ان اصولوں میں سے ہیں،جن کی وجہ سےاحکام شرع  تبدیل ہو جاتے ہیں اوریاد رہے کہ احکام میں تبدیلی کا یہ معاملہ ہمیشہ سے  جاری اور علماء میں معمول بہا ہے،کہ بعض احکام میں پہلے عدم جواز کا فتوی دیا جاتا تھا،  لیکن بعد میں ضرورت ، حاجت، دفع ِ حرج، عمومِ بلوی ،فسادِ موجود یا مظنون بظنِ غالب کا ازالہ وغیرہا اصولوں کے پیش ِ نظر  علماء و فقہاء نے کبھی تو اپنے ہی مذہب کی کسی روایت پراورکبھی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہوئے جواز کا فتوی دیاہے۔

    پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ فی زمانہ دار الحرب میں بھی (دیگر شرائط کی موجودگی میں )جمعہ و عیدین کی نماز ادا کرنا درست ہے۔البتہ خواص وہاں جمعہ کے دن ظہرِ احتیاطی بھی ادا کریں یعنی نمازجمعہ کے بعد چار رکعتیں  اس نیت سے پڑھیں کہ ظہر کی سب سے آخری نماز ،جس کا وقت پا یا اورابھی تک ادا نہیں کی ،اسے پڑھ رہا ہوں اور بہتر یہ ہے کہ جمعہ کے بعد چار سنتیں پڑھنے کے بعد ظہرِ احتیاطی پڑھی جائے۔

حالاتِ زمانہ کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’فکثیر من الاحکام تختلف باختلاف الزمان ،لتغیر عرف اھلہ او لحدوث ضرورۃ او فساد اھل الزمان، بحیث لو بقی الحکم علی ماکان علیہ او لا، للزم منہ المشقۃ والضرر بالناس ولخالف قواعد الشریعۃ المبنیۃ علی التخفیف والتیسیر، و دفع الضرر والفساد لبقاء العالم علی اتم نظام و احسن احکام ، ولھذا تری مشائخ المذھب خالفوا ما نص علیہ المجتھد فی مواضع کثیرۃ، بناھا علی ما کان فی زمنہ، لعلمھم بانہ لو کان فی زمنھم لقال بما قالوا بہ اخذاً من قواعد مذھبہ‘‘ترجمہ: بہت سے احکام زمانے کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں، کیونکہ اہل زمانہ کا عرف بدل چکا ہوتا ہے، یا کوئی ضرورت پیش آجاتی ہے، یا اہل زمانہ میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے، چنانچہ اگر اب بھی سابقہ حکم باقی رہتا ہے، تو یہ لوگوں کے مشقت اور ضرر میں مبتلا ہونے کا سبب بنے گا، نیز ان قواعد شرعیہ کی بھی مخالفت لازم آئے گی، جن کی بنیاد ہی بہترین معاشرے ونظام کے مطابق عالم کی بقا کے لیے تخفیف و آسانی، دفع ضرر وفساد پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشائخ مذہب کو دیکھیں گے کہ انہوں نے کئی ایسے مقامات پر مجتہد کے منصوص مسائل کی مخالفت کی ہے، جن کی بنیاد ان کے زمانے کی موجودہ حالت پر تھی، کیونکہ ان حضرات کو معلوم تھا کہ اگر وہ مجتہد ہمارے زمانے میں ہوتے، تو اپنے مذہب کے قواعد پر عمل کرتے ہوئے ضرور وہی حکم دیتے، جو ہم نے دیا ہے۔

( رسائل ابن عابدین ، ج 2، ص 125 تا 126، سھیل اکیڈمی، لاھور)

    شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جہاں تک ہو سکے ہمیں آسانی پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:’’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا بعث احداً من اصحابہ فی بعض امرہ، قال: بشروا ولا تنفروا، ویسروا ولا تعسروا‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی صحابی کو کسی کام کے لئے بھیجتے، تو فرماتے: خوشخبری دو، متنفر نہ کرو، آسانی پیدا کرو، تنگی میں نہ ڈالو ۔‘‘

( صحیح مسلم، ج 2، ص 82 ،مطبوعہ کراچی)

    اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’چھ باتیں ہیں، جن کے سبب قولِ امام بدل جاتا ہےاور قول ظاہر کے خلاف عمل ہوتا ہے اور وہ چھ باتیں  ضرورت ، دفع حرج ، عرف ، تعامل ، دینی ضروری مصلحت کی تحصیل ، کسی فساد موجود یا مظنون بظن غالب کا ازالہ، ان سب میں بھی حقیقۃقول امام ہی پر عمل ہوتا ہے ۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،ج1،حصہ 1،ص127،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    اور عموم بلویٰ اور فساد کی تعریف بیان کرتے ہوئے محققِ مسائلِ جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں:’’عموم بلوی:وہ حالت و کیفیت جس کے باعث عوام و خواص سبھی محظورِ شرعی میں مبتلا ہوں اور دین ،جان ،عقل ،نسب ،مال یا ان میں سے کسی کے تحفظ کے لیےاس سے بچنا مشقت و ضرر کا سبب ہو۔

فساد:وہ ناگوار چیز،جو دین، جان، عقل، نسب، مال یا ان میں سے کسی ایک کو فوت کر دے، جیسے کلمہ کفر بولنے یا کسی کفر کا ارتکاب کرنے سے ایمان کی بربادی، نماز میں کلام یا عملِ کثیر سے نماز کا فساد، نکاح سے باہر ہونے کے لئے عورت کا ارتدادوغیرہ،اسی فساد کو دور کرنے کا نام ازالہ فساد ہے، جسے دفع مفسدہ بھی کہا جاتا ہے۔“

(فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول،ص47تا49،مطبوعہ والضحیٰ پبلی کیشنز)

    نوٹ:فی زمانہ دار الحرب میں جمعہ وعیدین کے جوازکی مکمل تفصیل مجلسِ شرعی آف مبارکپور کے ’’دسویں فقہی سیمینار‘‘ کے مقالہ جات اورفیصلوں میں دیکھی جا سکتی ہے،جو مفتی نظام الدین رضوی صاحب مدظلہ العالی کی کتاب بنام’’جدید مسائل پر علماء کی رائیں اور فیصلے‘‘کے ص387تا 398پربھی موجود ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم