Cotton Ke Bareek Kapre Pehen Kar Namaz Parhna Kaisa ?

کاٹن کے باریک کپڑے پہن کر نماز پڑھنا کیسا ؟

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1811

تاریخ اجراء:23ذوالحجۃالحرام1444 ھ/12جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کاٹن کے کپڑے باریک ہوتے ہیں،کیااُنہیں پہن کر نماز ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہر کاٹن کا کپڑا اتنا باریک نہیں ہوتا کہ اس سے جسم  کی رنگت ظاہر ہو۔ہاں بعض کاٹن کے کپڑے واقعی اتنے باریک ہوتے ہیں کہ اُن سے جسم کی رنگت نظر آتی ہے،یونہی بعض اِن میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ پانی لگنے سے جب گیلے ہوجاتے ہیں تو جسم کی رنگت دکھائی دیتی ہے۔بہرحال کاٹن یا کوئی بھی کپڑا اگر اس قدر باریک ہو کہ اس سے عورت کے جسم کا کوئی حصہ چھلکتا  ہوا نظر آتا ہویا  دوپٹہ سے بالوں کی سیاہی نظر آتی ہو،یونہی مرد کے ناف سے لیکر گھٹنوں کے نیچے تک کے حصے کی رنگت جھلکتی ہو تو مرد و عورت دونوں کیلئے  اس قدر باریک لباس پہننا اور اس میں نماز ادا کرنا ہر دو اُمور شرعاً جائز نہیں، بلکہ ایسے کپڑے میں نماز ادا کرنے سے نماز شروع    ہی نہیں ہوگی، کیونکہ نماز میں ستر عورت شرط ہے اورمرد کا ستر عورت ناف سے کر گھٹنے کے نیچے تک ہے۔جبکہ عورت کا تو تمام جسم ہی ستر عورت ہے یہاں تک کہ سر سے لٹکتے ہوئے بال بھی ، سِوائے چہرے اور کلائیوں تک ہاتھوں اور ٹخنے سے نیچے تک پاؤں کے، کہ ان کا چھپانا نماز میں فرض نہیں۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’والثوب الرقیق الذی  یصف ما تحتہ لا تجوز الصلاۃ فیہ کذا فی التبیین‘‘ ترجمہ: اتنا باریک کپڑا جس کے نیچے جسم ظاہر ہو اس میں نماز جائز نہیں ہے، اسی طرح تبیین میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ، کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ ، جلد 1 ،صفحہ 65، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے: ’’اتنا باریک کپڑا، جس سے بدن چمکتا ہو، ستر کے لیے کافی نہیں ، اس سے نماز پڑھی، تو نہ ہوئی۔ یوہیں  اگر چادر میں  سے عورت کے بالوں  کی سیاہی چمکے، نماز نہ ہوگی۔ بعض لوگ باریک ساڑیاں  اور تہبند باندھ کر نماز پڑھتے ہیں  کہ ران چمکتی ہے، ان کی نمازیں  نہیں  ہوتیں  اور ایسا کپڑا پہننا، جس سے ستر عورت نہ ہوسکے، علاوہ نماز کے بھی حرام ہے‘‘۔                      (بہار شریعت،حصہ3،صفحہ480،مکتبۃ المدینہ)

   نماز کی شرائط میں سے ستر عورت بھی ہے،اور مرد کا ستر ناف سے گھٹنے کے نیچے تک ہے جبکہ عورت کا تمام جسم ہی  ستر عورت ہے سوائے چند اعضا کے ۔چنانچہ  تنوير الابصار مع در مختار میں ہے: ’’الرابع (ستر عورتہ وھی للرجل ماتحت سرتہ الی ماتحت رکبتہ... وللحرۃجمیع بدنھاحتی شعرھا النازل فی الاصح خلا الوجہ والکفین والقدمین ‘‘ ملتقطاً۔ ترجمہ : چوتھی شرط اس کے ستر کا چھپا ہوناہے۔اور مرد کا ستر عورت ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک ہے اور آزاد عورت کا تمام جسم  ہی ستر عورت ہے حتی کہ سر سے لٹکتےہوئےبال بھی ، سِوائے چہرے اور کلائیوں تک ہاتھوں اور ٹخنے سے نیچے تک پاؤں کے ۔( تنویر الابصار مع درمختار ، کتاب الصلاۃ ، مطلب فی ستر العورۃ،  جلد 2، صفحہ 96-93، دار المعرفۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم