Buland Awaz Se Takbeer Kehne Ke Liye Luqma Dena

بلند آوازسے تکبیر کہنے کے لیے لقمہ دینا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1836

تاریخ اجراء:01محرم الحرام1445ھ/20جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ظہر کی نماز میں امام صاحب نے تکبیر رکوع  بلندآوازسےنہیں کہی اور امام صاحب رکوع میں چلے گئے اور مقتدی کھڑے رہے، 3 بار سبحان اللہ  کہنےکی مقداربرابر وقت گزر جانے کے بعد لقمہ  دیا گیا  پھر امام صاحب نے لقمہ دینے کی وجہ سے رکوع ہی میں  بلندآوازسےاللہ اکبر کہا،  تب سب رکوع میں گئےاور آخر میں امام صاحب نے سجدہ سہو کیاتو کیا نماز ہو گئ یا اعادہ کرے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رکوع میں جاتے وقت امام کابلندآوازسے تکبیر پڑھنا سنت ہے، واجب نہیں کہ اس کے ترک سے نماز میں  ایساخلل واقع ہو ،جس کی  درستگی کے لیے لقمہ کی ضرورت  ہو،لہذا یہاں بے محل لقمہ دینے کی وجہ سے لقمہ دینے والے کی اور اس کا لقمہ لینے کی وجہ سے امام صاحب اور تمام مقتدیوں کی نماز فاسد ہوگئی، سجدہ سہو   سے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا لہٰذا اس نماز میں شامل تمام افراد  امام و مقتدی ، سبھی کو اس نماز کو از سرے نو پڑھنا فرض ہے۔

   ا مام کے بلندآواز سے تکبیر کہنے کے متعلق مراقی الفلاح میں ہے:”ویسن  جھر  الامام بالتکبیر“ ترجمہ:امام کا جہر سے تکبیر کہنا سنت ہے۔(مراقی الفلاح،صفحہ143،مکتبۃ المدینہ)

   اوربے محل لقمہ دینے پر امام اہل سنت فرماتے ہیں:” غورکیجئے تو اس صورت میں بھی اس بتانے کامحض لغو وبے حاجت واقع ہونا اور اصلاح نماز سے اصلًا تعلق نہ رکھنا ثابت کہ جب امام قدہ اولٰی میں اتنی تاخیر کرچکا جس سے مقتدی اس کے سہو پر مطلع ہوا تولاجرم یہ تاخیر بقدرکثیر ہوئی اور جوکچھ ہوناتھا یعنی ترك واجب ولزوم سجدہ سہو وہ ہوچکا اب اس کے بتانے سے مرتفع نہیں ہوسکتا اور اس سے زیادہ کسی دوسرے خلل کا اندیشہ نہیں جس سے بچنے کو یہ فعل کیاجائے کہ غایت درجہ وہ بھول کر سلام پھیردے گا پھر اس سے نماز تو نہیں جاتی وہی سہو کاسہورہے گا، ہاں جس وقت سلام شروع کرتا اس وقت حاجت متحقق ہوتی اور مقتدی کوبتاناچاہئے تھا کہ اب نہ بتانے میں خلل وفسادنماز کااندیشہ ہے کہ یہ تواپنے گمان میں نماز تمام کرچکا،عجب نہیں کہ کلام وغیرہ کوئی قاطع نماز اس سے واقع ہوجائے، اس سے پہلے نہ خلل واقع کاازالہ تھا نہ خلل آئندہ کااندیشہ، تو سوافضول وبے فائدہ کے کیاباقی رہا، لہٰذا مقتضائے نظر فقہی پر اس صورت میں بھی فسادنماز ہے۔(فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ264،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم