Buchi Ke Baal Mondna Kesa Aur Jo Imam Mundwata Ho Uske Peche Namaz Parhna Kesa?

بُچی کے بال مونڈنا کیسا اور جو امام منڈواتا ہو ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ؟

مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7045

تاریخ اجراء: 06محرم الحرام1442 ھ/26اگست2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِشرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہونٹ کے نیچے بُچی کےجوبال  ہوتے  ہیں،انہیں مونڈ سکتے ہیں یانہیں؟اگرنہیں مونڈ سکتے، توجوامام ان بالوں کوبالکل منڈواتا ہو،توکیااس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ہونٹوں کے نیچے بُچی کے بال مونڈنا یا منڈوانا بدعت،ناجائز و گناہ ہے،کیونکہ یہ بال داڑھی میں شامل ہیں اورداڑھی مونڈنا یا  منڈوانا،ناجائزوگناہ ہے،لہذابُچی کے بال مونڈنایامنڈوانا بھی ناجائزوگناہ ہے،البتہ اگریہ بال اتنے بڑھ جائیں کہ کھانے،پینےاورکلی وغیرہ کرنے میں رکاوٹ بنے،توانہیں بقدرِضرورت کتروادینے میں کوئی حرج نہیں۔

     اوربُچی کے بال مونڈنے والاشخص فاسق معلن ہےاورفاسق معلن کے پیچھے نمازپڑھنامکروہ تحریمی وگناہ ہےاوراگرپڑھ لی،تواعادہ واجب ہے،لہذابُچی مونڈنے والے امام کے پیچھے نمازپڑھنامکروہ تحریمی وواجب الاعادہ ہے۔

     چنانچہ بُچی کے بال منڈوانابدعت ہے،اِس بارے میں ردالمحتاراورفتاوی عالمگیری میں ہے:’’ نتف الفنبکین بدعۃ وھما جانبا العنفقۃ و ھی شعر الشفۃ السفلی‘‘ یعنی: ہونٹوں سے نیچے والے بالوں کو اکھیڑنا بدعت ہے اور وہ داڑھی کی بُچی کی طرفین اور نیچے کے ہونٹ کے بال ہیں۔

(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الحظروالاباحۃ ،ج09،ص671،مطبوعہ کوئٹہ)(فتاوی عالمگیری ،ج05،ص358،مطبوعہ کوئٹہ)

     اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:’’یہ بال بداہۃ سلسلہ ریش میں واقع ہیں کہ اس سے کسی طرح امتیاز نہیں رکھتے ،توانہیں داڑھی سے جداٹھہرانے کی کوئی وجہ وجیہ نہیں،وسط میں جوبال ذراسے چھوڑے جاتے ہیں،جنہیں عربی میں عنفقہ اور ہندی میں بُچی کہتے ہیں، داخلِ ریش ہیں۔۔۔توبیچ میں دونوں طرف کے بال جنہیں عربی میں فنیکین،ہندی میں کوٹھے کہتے ہیں، کیونکرداڑھی سے خارج ہوسکتے ہیں،داڑھی کے باب میں حکم ِاحکم حضور پر نورسیدعالم صلی  اللہ  تعالیٰ  علیہ  وسلم ’’ اعفوا ا للحی  و     اوفروااللحی‘‘(داڑھیاں بڑھاؤاورزیادہ کرو۔ت)ہے،تواس کے کسی جز ءکامونڈنا،جائزنہیں،لاجرم علماء نے تصریح فرمائی کہ کوٹھوں کانتف یعنی اکھیڑنابدعت ہے،امیرالمؤمنین عمرابن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے شخص کی گواہی ردفرمائی.....ان العنفقۃ وطرفیھاجمیعامن اجزاء اللحیۃ وھی واجبۃ الاعفاء فلاینبغی الاقدام علی ذلک مالم یثبت من حدیث صحیح اونص من امام المذھب صریح‘‘ترجمہ:بیشک عنفقہ اوراس کی دونوں طرف کے بال داڑھی میں شامل ہیں اوران کاچھوڑناواجب ہے،لہذااس پرجرأت ِاقدام کسی طرح جائز نہیں، جب تک کسی حدیث صحیح سے یاامام مذہب کی طرف سے کسی صریح نص کے ساتھ ثابت نہ ہو،پس اس میں گہری سوچ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،ج22،ص598-597،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

     فتاوی یورپ میں ہے:’’داڑھی بُچہ جس کوعربی میں عنفقہ کہاجاتاہے ،وہ داڑھی ہی کاایک اہم حصہ ہے،اس کاحلق وقصرویسا ہی حرام ہےجیساداڑھی کااوراس کے اردگردلبِ زیریں کے کھردرے بالوں کواکھیڑنایامونڈنابھی بدعتِ مکروہہ(حرام)ہے۔‘‘

(فتاوی یورپ،کتاب الحظروالاباحۃ،صفحہ535،مطبوعہ شبیربرادرز،لاھور)

     جونمازکراہت کے ساتھ اداکی جائے ،اس کے اعادہ کے واجب ہونے کے بارے میں درمختارمیں ہے:’’کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ التحریم  تجب اعادتھا‘‘ترجمہ :ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی، اس کو لوٹانا واجب ہے ۔  

 (درمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ ، ج02،ص182،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

     بُچی کے بال حدسے زیادہ بڑھ جانے پرکتروانے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:’’ہاں اگر یہاں بال اس قدر طویل وانبوہ ہوں کہ کھاناکھانے،پانی پینے،کلی کرنے میں مزاحمت کریں،توان کاقینچی سے بقدرِحاجت کم کردینارواہے۔خزانۃ الروایات میں تتارخانیہ سے ہے:’’یجوز قص الاشعارالتی کانت من الفنیکین اذازحمت فی المضمضۃ اوالاکل اوالشرب‘‘(ترجمہ:زیریں لب کے دونوں کناروں کے بال کترنے جائزہیں،جبکہ کلی کرنے اورکھانے پینے میں رکاوٹ ہوں۔)یہ روایت بھی دلیل واضح ہے کہ بغیراس مزاحمت کے ان بالوں کاکترنابھی ممنوع ہے ،نہ کہ مونڈنا۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،ج22،ص599،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم